ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
پہلے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جنگی قیدیوں کا بار بجائے اِس کے کہ صرف حکومت برداشت کرے اَور وہ بھی قید میں وقت گزاریں اُنہیں پبلک میں تقسیم کردیا جاتا تھا لوگ اُن سے مختلف کام لیتے رہتے تھے گھروں میں رہنے کو جگہ دیتے تھے کھانا، لباس سب مالک کے ذمّہ ہوتا تھا اِس طرح شاہی خزانہ پر اِن کا بار نہ پڑتا تھا دُنیا کے ہر ملک میں یہی طریقہ تھا لیکن اِسلام نے جب پھیلنا شروع کیا تو یورپ تک کے علاقے زیر نگیں آگئے اَور قیدی اَور باندی غلام غیر مسلم ہی بنتے رہے اِس لیے اَب آکر یورپ والوں نے یہ شہرت دینی شروع کی ہے کہ اِسلام میں باندی اَور غلام بنانے کا قاعدہ ساری دُنیا سے ہٹ کر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دُنیا بھر کا دستور تھا یورپ میں بھی قیدیوں کو غلام بنایا جاتا تھا حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جو رُومی کہلاتے تھے اِسی طرح رُومیوں نے اِنہیں غلام بنایا تھا۔ اِسلامی اَفواج کو جہاد میں اَور خصوصًا عہد شکنی کی صورتوں میں نقصان بھی اُٹھانا پڑا ہے اَور اُنہیں فِکَاکُ الْاَسِیْرِ قیدیوں کو آزاد کرانے کے جو اَحکام بتلائے گئے تھے اُن پر عمل کرتے ہوئے غلام بنانے کے بجائے قیدی ہی رکھا گیا اَور اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے تبادلے میں دِیا گیا۔ مستشرقین کے اُٹھائے ہوئے اَور بھی بہت سے اعتراضات ہیں لیکن اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو وہ سب اِسی قسم کے ہیں کہ حقائق کو مسخ کرکے صرف ایک نکتہ کو اُٹھایا گیا اَور اُسے بُری شکل دے کر ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ گزشتہ چھ سالہ عرصہ میں کمیونسٹ نظام کے دَاعی اَور سوشلسٹ قسم کے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں لیکن میں نے اُنہیں اِسلامی نظام سے ناواقف پایا جوابًا وہ اِسلامی نظام کو پسند کرکے ہی جاتے رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی قسمت ہی کی بات ہے ورنہ وہ اِسے عملی جامہ پہناسکتے ہیں اَور اِس میں عقلاً بھی کمیونزم و سوشلزم سے زیادہ خوبیاں ہیں اَور ملک کی بدقسمتی کا یہ منظر بھی آپ کے سامنے ہے کہ پبلک اِسلام چاہتی ہے اَور عنانِ اِقتدار پر مسلط طبقہ اِس کے نفاذ کے خلاف ہے اَور مطلب کے لیے اِسلام کا نام لیوا ، نہ معلوم اَنجام کیا ہو۔ اِسی دَوران میرے پاس ایک وکیل آئے اُنہوں نے کہا کہ اِسلام میں ٹریفک کے قوانین کہاں ہیں؟ اِس کا جواب اگر وہ عقل کا مثبت اِستعمال کرتے تو شاید خود ہی دے سکتے تھے کہ سلامتی اَور اَمن کے لیے جس