ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
ہیں، اِن لوگوں کو یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ وہ دونوں امریکہ اَور سپین کا سفر کر چکے تھے ہم نے جب اُن سے پوچھا کہ آپ کبھی سعودی عرب عمرہ یا حج کے لیے گئے ہیں تو اُنہوں نے نفی میں جواب دیا۔ مسجدوں کی حالت ِزار پر بھی اُن سے بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی اَور پولیٹیکل وجوہات خاص کر کاسابلنکا میں بم دھماکوں کے بعد یہ صورت ِحال پیدا ہوئی ہے۔ اَب مسجدیں صرف نماز کے اَوقات میں کھلتی ہیں اَور نماز کے بعد فورًا بند کر دی جاتی ہیں۔ اِس راستے میں پاکستان کی جھلک بھی نظر آئی لوگ بیل گاڑیوں اَور گدھوں پر مال مویشیوں کے لیے چارہ لاتے اَور عورتیں کھیتوں میں کام کاج کرتی نظر آئیں۔ مراکش اَور پاکستان کا رہن سہن، تہذیب کلچر ثقافت کا اَگر جائزہ لیا جائے تو اِن دونوں ملکوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں۔ بازاروں میں بھی آپ چلے جائیں کھانے پینے اَور پرچون کی دُکانیں اِسی طرح سجائی اَور ترتیب دی جاتی ہیں جس طرح ہمارے یہاں ہیں۔ آٹا دالیں چینی مرچیں گرم مصالے اِسی طرح بوریوں میں اَور تول کر فروخت کیے جاتے ہیں۔ فیض مراکش کا ایک بہت قدیم شہر ہے ہم جب اِس شہر میں داخل ہوئے تو مجھے یوں لگا جیسے میں پرانے لاہور میں داخل ہو گیا ہوں پرانے لاہور اَور فیض کی گلی کوچوں محلوں اَور بازاروں میں ذرّہ برابر بھی فرق نہ تھا،شہر کی تنگ و تاریک گلیاں سبزی فروٹ اَور پرچون کی دُکانیں۔ ہم ایک مسجد کے پاس سے گزرے تو وہاں چاولوں کی دیگ تقسیم کی جا رہی تھی چھوٹے بڑے تمام اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے دیگ پر لپک رہے تھے۔ اِس شہر میں یورپین سیاح قدیم تہذیب کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں آتے ہیں اُن کے لیے اِس میں واقعی دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر ہمارے لیے اِس میں کوئی اَنوکھی اَور عجیب بات نہ تھی۔ غربت کے آثار بھی نمایاں تھے گلیوں میں بوڑھے عربی پھٹے پرانے بوسیدہ اَور گندے کپڑے پہنے بھیک مانگتے بھی نظر آئے۔ ہمارا مقامی رہبر گلیوں کے بیچوں بیچ ہمیں قالینوں کی ایک دُکان پر لے گیا جہاں گائے اُونٹ اَور بھیڑ کی اُون کے بنے قالین بڑی تعداد میں موجود تھے مگر ہمارے علاوہ وہاں کوئی دُوسرا گاہک نہ تھا ،قالینوں کی قیمتیں اِنتہائی زیادہ تھیں یا ہمیں بتائی جا رہی تھیں ،آدمی اُن کا ریٹ تو پوچھتا ہے اَور پھر حیلے بہانے سے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہر حال دُ کاندار گاہکوں کو ترغیب تو دیتے ہیں مگر ہمارے پاکستانی دُکانداروں کی طرح گاہک کو ذلیل اَور بے عزت نہیں کرتے۔ گاہک دوبارہ آنے کا کہہ کر دُکان سے