ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
اَور اِس معنی میں وفات ِ اَنبیاء کا کوئی بھی اِنکار نہیں کرتا ورنہ اَنبیاء کرام کی تدفین جائز نہ ہوتی حالانکہ تدفین کی گئی ہے یہی اِنَّکَ مَیِّت اَور قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ میں مراد ہے ۔ اَور لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْبَعْضَ یَوْمٍ فرمانے میں حضرت ِ عزیر علیہ الصلوة والسلام نے جو محسوس کیا وہی بتلایا اَور جو محسوس کیا وہ صحیح تھا کیونکہ موت کے بعد رُوح کا تعلق ایک اَور عالم سے ہوجاتا ہے وہاں زمانہ کا پیمانہ یہی ہے اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (وہاں کا)ایک دِن (یہاں کے)ایک ہزار سال کا ہوا تو سوسال ایک دِن کا کچھ حصہ ہی ہوں گے۔ آنسٹائن کی حسابی تحقیق بھی یہ تھی کہ دُوسرے کُروں پر زمانہ کا اِتنا زیادہ فرق ہے کہ اَگر کبھی اہل زمین دُوسرے کروں پر جائیں تو اُنہیں اپنے دوستوں سے مل کر جانا چاہیے کیونکہ دُوسرے کرے میں وہ بہت تھوڑا عرصہ گزار کر جب واپس آئیں گے تو دُنیا میں ستر سال گزر چکے ہوں گے اَور دوست مرچکے ہوں گے۔ اَب جس عالم میں حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام ہیںوہاں بھی اِسی قدر تفاوت زمانہ و کیفیات ہے وہ حمام سے غسل کرکے نکلے تھے واقعہ معراج تک اُن کی ایسی ہی حالت تھی کَاَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِیْمَاسٍ اَور یَقْطُرُ رَأْسُہ مَائً سر سے پانی کے قطرات ٹپکتے جیسے لگ رہے تھے اَور دُنیا میں دو بارہ آنے کے وقت بھی یہی حال بتلایا گیا ہے۔ اِس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کے اِس جواب سے یہ اِستد لال تو کیا جا سکتا ہے کہ اُنہیں زمانہ گزرنے کا احساس نہیں ہوا یا اُس عالم کے زمانے کا پیمانہ اَور ہے(مگر) عدم ِ سماع کا اِستد لال نہیں کیا جاسکتا۔ میرے پاس وقت نہیں ہوتا اِس لیے معذرت کے ساتھ اِسی قدر پر اِکتفاء کرتاہوں۔ عنایت اللہ شاہ صاحب مقلد نہیں ہیں جو غیر مقلد ہو وہ خود کومجتہد مانتا ہے ممکن ہے کہ وہ خود ہی کسی وقت بدل جائیں۔ والسلام حامد میاں غفرلہ ٣ صفر١٤٠٢ھ / یکم دسمبر ١٩٨١ء سہ شنبہ