ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
تصور ِ پاکستان اَور حدود ِ پاکستان کے بارے میں حضرت مدنی اپنے دُوسرے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں : پاکستان کے مفہوم کے متعلق اَب تک مختلف تفصیلات آئی ہیں اجلاس لاہور ١٩٤٠ء میں جو قراداد پاس ہوئی تھی اَور جسے پاکستان کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے اِس کے الفاظ حسب ِ ذیل تھے : مسلم لیگ کی یہ پختہ رائے ہے کہ کوئی دستور حکومت بغیر اِس کے کہ وہ ذیل کے اصول پر مبنی ہو نہ قابل ِ عمل ہوسکتا ہے اَور نہ مسلمانوں کے لیے قابل ِ قبول یہ کہ (١) جغرافیائی حیثیت سے متصل وحدتوں کی ایسے علاقوں میں حد بندی کردی جائے جو اِس طرح بنائے جائیں اَور اُن میں ضرورت کے مطابق ایسی سرحدی تبدیلیاں کی جائیں وہ رقبے جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے مثلاً ہندوستان کی شمال مغربی اَور مشرقی منطقے (یعنی پنجاب و غیرہ اَور بنگال و آسام اُس وقت کے صوبے نہیں بلکہ اَزسرے نو تقسیم شدہ حصے۔ یہی تجویز پنجاب اَور بنگال کی تقسیم کی بنیاد بنی) ایک مستقل ریاست بن جائیں اَوراِس ر یاست کے اجزائِ ترکیبی اَندرونی طرز پر خود مختار اَور مطلق العنان ہوں۔ (٢) یہ کہ اُن علاقوں اَور منطقوں کے اجزائِ ترکیبی میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، اِنتظامی اَور دُوسرے حقوق و مفاد کے تحفظ کے لیے آئین میں معتدل اَور مؤثر اَور واجب التعمیل تحفظات درج کیے جائیںاَور نیز ہندوستان کے دُوسرے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے مسلمانوں کے لیے اَور نیز دُوسری اقلیتوں کے لیے ایسی معقول، مؤثر اَور واجب التعمیل تحفظات معین طور پر دستور میں شامل کر دیے جائیں جن سے اُن کے مذہبی ،ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اَور دُوسرے حقوق و مفاد کی حفاظت ہوجائے۔ یہ اِجلاس ورکنگ کمیٹی کو یہ اِختیار دیتا ہے کہ دستور کی ایک اسکیم مرتب کرے جو اِن