ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
محترما! جب کوئی تحریک کسی شخص کی طرف منسوب ہوگی تو وہ قبلۂ توجہ ہوگا اَور اُس شخص کے عقائد اَور اَخلاق کا اَثر ممبروں پر قطعی طور پر ضرورپڑے گا خصوصاً جبکہ مودودی صاحب کا لٹریچر زَور دار طریقے پر شائع کیا جا رہا ہے اَور ممبروں اَور غیر ممبروں کو اِس کے مطالعہ کی ترغیب دی جارہی ہے اِس صورت میں وہ زہریلا مواد جو نہایت چلاکی سے تحریروں میں رکھا گیا ہے اَپنے اَثر سے خالی نہیں رہ سکتا۔ (٧) مودودی صاحب اپنی جماعت کا دستور لکھ رہے ہیں عرصہ سے یہ دستور شائع ہو رہا ہے اَور الفاظ اِتنی وضاحت کے ساتھ سلب ِکلی کے طور پر ہر اِنسان سے معیار یت ِحق اَور تنقید سے بالا تر ی اَور ذہنی غلامی میں ابتلاء کی تبلیغ کر رہے ہیں۔اِس عموم اَور استغراق اَور سلب ِ کلی اَور استغراق کو کہاں لے جائیں گے؟ بحث الفاظ پر ہے، احتمالات غیر مفہومہ عن العبارة پر نہیں۔ اَور اگر آپ مودودی صاحب کی تصانیف اَور اُن کے خواص کی تالیفات کا اِستقصا فرمائیں گے تو نہ صرف عام اَنبیاء و رُسل بلکہ اُلو العزم رسولوں کے لیے بھی اُن کے بے پناہ قلم سے پناہ اَور اُن کی تنقید سے نجات نہ پائیں گے۔ (٨) جس جگہ صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) سے نہ صرف بدظنی پھیلائی جاتی ہو بلکہ اَشْہَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَلِیُّ اللّٰہِ وَصِیُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَ خَلِیْفَتُہ بِلَا فَصْلٍ با آواز ِ بلند اَذان میں کہا جاتا ہو نیز اِمام باڑوں، مجلس ِ خاصہ اَور خصوصی مساجد میں اُن کی طرف غلط اَور جھوٹے اہانت آمیز واقعات منسوب کیے جاتے ہوں اَور عوام کے سنیوں کے سننے اَور شریک ہونے سے غلطی میں پڑنا ممکن ہو تو سُنیوں کی اصلاح اَور تحفظ ِعقائد کے لیے ایسی مجالس کا منعقد کرنا جن میں صحابہ کرام کے صحیح واقعات ذکر کیے جاتے ہوں اَور اُن کی ثناء اَور صفت کی جاتی ہو واجب ہے۔ (٩) مسلَّمہ اصول ہے کہ ہر قوم اپنے مقتدایان ِ دین اَور اَکا بر ملت کے کارناموں، اُن کی تعلیمات اَور اُن کے واقعات ِ زندگی سے متاثر ہوتی ہے، مسلمانوں کے لیے رسولِ مقبول ۖ کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص خلفائے راشدین کے کارنامے اُن کی تعلیمات اُن کے حالات ِ زندگی سرچشمہ ہدایت ہیں، اَور نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام اِنسانی دُنیا کے لیے اُن کے کارناموں میں کھلی ہوئی اَور صاف ستھری روشنی موجود ہے اَور یہی وجہ ہے کہ ١٧جولائی ١٩٣٧ء کے اَخبار ہریجن میں گاندھی نے کانگریسی وزراء کو زَور دار الفاظ میں ہدایت کی تھی کہ وہ اپنا طرز ِ عمل حضرات شیخین حضرت ابو بکر اَور عمر جیسا بنائیں،