ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
وغیرہ وغیرہ۔ میںنے کہا بس لمبی چوڑی باتیں نہ کرو یہ کہہ کر میں نے اپنے کپڑے اور احرام کی چادر یں اور جو سامان میرے ساتھ تھا وہ سب لیا اور نقد چھ سو درہم تھے وہ لیے اور ان میں سے سو درہم کا آٹا خریدا اور سو درہم کا کپڑا خریدا اور باقی درم جو بچے وہ آٹے میں چھپاکر اُس بُڑھیا کے گھر پہنچا اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرہ اُس کو دیدیا اُس عورت نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہنے لگی اے ابن سلیمان جا اللہ جل شانہ تیرے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب عطا کرے او ر اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے اور اِس کا ایسا بدل عطا فرمائے جو تجھے بھی ظاہر ہو جائے۔ سب سے بڑی لڑکی نے کہا اللہ جل شانہ تیرا اَجر دو چند کرے اور تیرے گناہ معاف کرے ،دُوسری نے کہا اللہ جل شانہ تجھے اس سے بہت زیادہ عطا فرمائے جتنا تو نے ہمیں دیا،تیسری نے کہا حق تعالی شانہ ہمارے دادے کے ساتھ تیرا حشر کرے ،چوتھی نے جو سب سے چھوٹی تھی کہا اے اللہ جس نے ہم پر احسان کیا تو اِس کا نعم البدل اِس کو جلدی عطا کر اور اِس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر۔ ربیع کہتے ہیں حجاج کا قافلہ روانہ ہوگیا میں کوفہ ہی میں مجبوراً پڑ ارہا کہ وہ سب حج سے فارغ ہو کر لوٹ بھی آئے ۔مجھے خیال ہوا کہ اِن حجاج کا استقبال کروں ان سے اپنے لیے دُعاکرائوں کسی کی مقبول دعا مجھے بھی لگ جائے۔ جب حجاج کا ایک قافلہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا تو مجھے اپنے حج سے محرومی پر بہت افسوس ہوا اور رنج کی وجہ سے میرے آنسو نکل آئے ۔جب میں اُن سے ملا تو میں نے کہا اللہ جل شانہ تمہارا حج قبول کرے اور تمہارے اخراجات کابدل عطا فرمائے۔ اُن میں سے ایک نے کہا یہ دُعاکیسی؟ میں نے کہا ایسے شخص کی دُعا جو دروازہ تک کی حاضری سے محروم رہا ہو ،وہ کہنے لگے بڑے تعجب کی بات ہے اب تو وہاں جانے سے اِنکار کرتا ہے توُہمارے ساتھ عرفات کے میدان میں نہیں تھا تونے ہمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی، تو نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیے ۔میںاپنے دل میں سوچنے لگا کہ یہ اللہ کا لطف ہے اِتنے میں خود میرے شہرکے حاجیوں کا قافلہ آ گیا ۔میں نے کہا کہ حق تعالی شانہ تمہاری سعی مشکور فرمائے تمہارا حج قبول فرمائے وہ بھی یہی کہنے لگے کہ تو ہمارے ساتھ عرفات میںنہیں تھا یارمی جمرات نہیں کی اب اِنکار کرتاہے اُن میں سے ایک