ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
مالِ تجارت : جو مال بیچنے اور نفع کمانے کے لیے ہو وہ مال ِتجارت ہے خواہ کسی قسم کا مال ہو یہاں تک کہ اینٹیں پتھر ، مٹی کے برتن، گھاس پھونس ،اگر اُن کی تجارت کی جاتی ہے تو اُن پر بھی زکٰوة واجب ہے۔ نصاب کسے کہتے ہیں : جن مالوں میں زکٰوة فرض ہے اُن کی شریعت نے خاص خاص مقدار مقرر کردی ہے جب اُتنی مقدار کسی کے پاس پوری ہو جائے تو زکٰوة فرض ہو جاتی ہے ۔ پس نصاب مال کی اُس خاص مقدار کو کہتے ہیں جس پر شریعت نے زکٰوة فرض کی ہے۔ چاندی کا نصاب اور اُس کی زکٰوة : چاندی کا نصاب باون تولہ چھ ماشہ ہے ١ اور انگریزی روپیہ کے وزن سے جو ساڑھے گیارہ ماشے کا ہوتا ہے ٥٤ تولہ ٢ماشہ اور جبکہ زکٰوة میںچالیسواں حصہ (١٤٠) دینا فرض ہوتا ہے تو ٥٤تولہ ٢ماشہ کی زکٰوة ایک تولہ چار ماشہ دو رَتی چاندی ہوگی۔ سونے کا نصاب اور اُس کی زکٰوة : سونے کا نصاب سات تولے چھ ماشے سونا ہوتا ہے ۔اِس کی زکٰوة دو ماشے دورَتی سونا ہوئی۔ تجارتی مال کا نصاب : سونے چاندی سے تجارتی مال کی قیمت لگائو پھر اگر اُس کی مالیت نصاب کے برابر یا اُس سے زائد ہوتو چاندی یا سونے کا نصاب قائم کرکے اُس کے حساب سے زکٰوة ادا کرو۔ اصل کے بجائے قیمت : (١) اصل فرض تو یہ ہے کہ جس مال پر زکٰوة واجب ہوتی ہے اُسی کا چالیسواں حصہ زکٰوة میں دو ۔ مثلاً اگر غلہ کی تجارت ہے تو تجارتی غلہ کا جس قدر اسٹاک ہے اُ س کا چالیسواں حصہ زکٰوة میں دے دو ۔ باقی یہ ١ وزن کے لحاظ سے ١٠ در ہم ٧ مثقال کے ہوتے ہیں ۔دوسو درہم ١٤٠ مثقال کے۔ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے تو ایک سو چالیس مثقال کا وزن چھ سوتیس ماشہ ہوگاجس کے ساڑھے باون تولے ہوتے ہیں ۔