ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
تانبے کے برتن روز مرہ کی ضرورت سے زائد رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی قیمت بقدرِ نصاب ہے ۔اُس پر اگرچہ اِن برتنوں کی زکٰوةدینی واجب نہیں ہے مگر اُس کو زکٰوة کا مال لینا بھی حلا ل نہیں ہے۔ (٢) سیّد اور بنی ہاشم کو زکٰوة دینی جائز نہیں ہے ۔اُن کی اگر خدمت کرنی ہے تو زکٰوة کے علاوہ کوئی اور رقم بطورِ ہدیہ پیش کیجئے ۔ آنحضرت ۖ سے اُن کو جو خاندانی نسبت ہے اُس کے احترام کا یہی تقاضا ہے ۔ تشریح : بنی ہاشم سے حضرت حارث بن عبدالمطلب ، حضرت جعفر ، حضرت عقیل ، حضرت عباس اور حضرت علی کی اولاد مراد ہے ۔(رضوان اللہ علیھم اجمعین) (٣) اپنے ماں باپ ،دادا دادی ، نانانانی وغیرہ جو اُن سے اُوپر کے ہوں ۔ (٤) بیٹا ،بیٹی ، پوتا، پوتی ، نواسا، نواسی وغیرہ جو اُن سے نیچے ہوں ۔ (٥) خاوند اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے خاوند کو بھی زکٰوة نہیں دے سکتی ۔ (٦) غیر مسلم۔ (٧) مالدار آدمی کی نابالغ اَولاد ۔ اِن تمام لوگوں کو زکٰوة دینی جائز نہیں ہے۔ کن کاموں میں زکٰوة کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے : جن کاموں میں کسی مستحق کو مالک نہ بنایا جائے ،اُن میں مال زکٰوة خرچ کرنا جائز نہیں ہے جیسے میت کے گوروکفن میںلگا دینا یا میت کا قرض اَدا کرنا یا مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کی تعمیر ، مسجد یا مدرسہ کا فرش، لوٹوں یا پانی یا چٹائی وغیرہ یا کتب خانہ کے لیے خرید کتب پرزکٰوة کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ۔ طلبہ علوم : ہاں ضرور ت مند طالب علموں کو زکٰوة کا مال دینا جائز ہے اَور مدرسوں کے مہتمم صاحبان کو اِس غرض سے کہ وہ طالب علموں پرخرچ کریں ،زکٰوة دینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ زکٰوة کن کو دینا اَفضل ہے : اوّل اپنے ایسے رشتہ داروں کو جن کا نفقہ خرچہ آپ کے ذمہ نہیں ہے جیسے بھائی ،بہن ، بھتیجے ، بھتیجیاں ،