ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
کے روزوں کی حقیقت اِتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلا کو دفعہ کرنے کے لیے رکھتے ہیں یا کسی فوری اور مخصوص رُوحانی کیفیت کے حاصل کرنے کے لیے۔ یہود کی قاموس ِ اعظم میں ہے کہ : '' قدیم زمانہ میں روزہ یا تو بطور ِ علامت ِ ماتم رکھا جا تا تھا یا جب کوئی خطرہ در پیش ہوتا تھا اور یا پھر جب سالک اپنے اَندر اِلہامات کی قبولیت کی اِستعداد پیدا کرنا چاہتا تھا۔ '' لیکن شریعت ِ مطہرہ کی نظر میں روزہ تزکیۂ نفس تربیت ِ جسم اور تعمیل ِ حکم ِ خدا وندی کا ایک بہترین دستورِ عمل ہے۔ اِس لیے اِرشاد ہوا لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ یعنی اسلامی روزہ کی غرض و غایت تقوی ہے۔ روزہ سے تقوی کی عادت پڑتی ہے۔ تقوی در اصل نفس کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے جو خدا کی یاد بکثرت کرتے کرتے دل میں پیدا ہوجاتی ہے اِس کی وجہ سے اِنسان گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکی وطاعت کا جذبہ غالب آجاتا ہے۔ روزہ میںاِنسان خدا کے حکم کی وجہ سے کھانے پینے سے باز رہتا ہے تو گویا خدا کی یاد بھی دل میں صبح سے شام تک رہتی ہے اور اِس سے تقوے کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ شریعت ِ مطہرہ نے عبادت اور کارو بار ِ حیات یکساں طور پر قائم رکھنے کا طریقہ بتلایا ہے اِس لیے روزہ میں کارو بار کی ممانعت نہیں فرمائی گئی نہ ہی روزہ ہمیشہ رکھنے کا حکم دیا گیا بلکہ سال میں گنے چنے صرف ٢٩ یا٣٠ دن روزہ رکھنا بتلایا گیا ہے اِس لیے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ اِرشاد فرمایا گیا۔ روزہ اَور تقویٰ : اِس آیت ِمبارکہ میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اِرشاد ہوا ہے کہ وہ اِس اُمت پر ایسے ہی فرض کیا گیا ہے جیسے پچھلی اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا۔آیت کے آخر میں اِس کا فائدہ اور اِس کی غرض و غایت بھی ذکر فرمائی گئی ہے کہ وہ حصول ِ کیفیت ِتقوی ہے۔ تقوی در اصل دل کی اُس کیفیت کا نام ہے جو ذکر الٰہی کی کثرت کے باعث حاصل ہوتی ہے کہ جب دل میں ہر وقت خدا وند ِقدوس کی یاد رہنے لگتی ہے تو اللہ کی ذات پاک سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے اَور یہ تعلق اِنسان کی طبیعت کو نیکی کر نے کے لیے اُبھارتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور چونکہ متقی اِنسان خدا کی نافرمانی سے ڈرتا ہے اِس لیے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خدا سے ڈرنے کا نام'' تقوی'' ہے۔