ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
( دینی مسائل ) عورت کو تفویض ِطلاق : اِقرار نامہ لکھوانا جس میں طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہو اَور بوقت ِ ضرورت اُس سے کام لینا شرعًا جائز ہے اور اِس اختیار دے دینے کو تفویض ِ طلاق کہتے ہیں۔ مسئلہ : اِس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں جو تینوں جائز ہیں : 1 ۔ چاہے نکاح سے پیشتر لکھوالیا جائے۔ 2 ۔ چاہے عین عقد کے وقت زبان سے کہلوا لیا جائے۔ 3 ۔ چاہے عقد ِ نکاح کے بعد کہلوالیا جائے یا لکھو الیاجائے۔ پہلی صورت : یہ کہ اقرار نامہ نکاح سے پہلے لکھوالیاجائے۔ اِس کے معتبر اور مفید ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ اِس میں نکاح کی طرف نسبت موجود ہو۔ مثلًا یہ لکھا جائے کہ اگر میں فلاں بنت ِفلاں کے ساتھ نکاح کروں اور پھر اِقرار نامہ میں مندرج شرائط میں سے کسی شرط کے خلاف کروں تو مسماہ مذکور کو اِختیار ہوگا کہ وہ اُسی وقت یا پھر کسی وقت چاہے تو اپنے اُوپر ایک طلاق ِ بائن ڈال کر اِس نکاح سے الگ ہوجائے۔ مسئلہ : اگر اِس میں نکاح کی طرف نسبت کو ذکر نہیں کیا گیا تو یہ اِقرار نامہ محض بیکار ہوگا۔ دُوسری صورت : یہ کہ عین ایجاب و قبول ہی میں زبانی شرائط مذکور ہوں۔ اِس کے صحیح و معتبر ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے ہو یعنی پہلے خود عورت کا ولی یا وکیل عقد ِ نکاح کے وقت یوں کہے کہ میں نے مسماہ فلاں بنت ِفلاں کو تمہارے نکاح میں اِس شرط پر دے دیا کہ اگر تم نے یہ کام کیا یا وہ کام کیا (جتنی شرطیں لگانا مقصود ہوسب کو ذکر کردیا جائے) تو اپنے معاملہ کا اختیار مسماہ موصوفہ کے ہاتھ میں ہوگا کہ اُسی وقت یا پھر کسی وقت چاہے تو اپنے آپ کو ایک بائن طلاق دے کر اِس نکاح سے الگ کر سکے گی۔ اُس کے جواب میں مرد یوں کہے کہ میں نے قبول کیا اور چاہے یوں کہے کہ میں نے شرائط سمیت قبول کر لیا اِس پر عورت کو اِختیار حاصل