ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
میں گھوم رہا تھا کہ ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا ہو ا تھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پُرانے بوسیدہ تھے چاقولیے ہوئے اُس کے ٹکڑے (گوشت کے) کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مُردار گوشت لے جارہی ہے اِس پر سکوت کرنا ہرگز نہ چاہیے ،عجب نہیں یہ کوئی بھٹیاری عورت ہے یہی پکا کر لوگوں کوکھلادے گی میں چُپکے سے اُس کے پیچھے ہو لیا اِس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھے ۔وہ عورت ایک بڑے مکان میں پہنچی جس کا دروازہ بھی اُونچا تھا اُس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹا یا،اندر سے آواز آئی کون ہے؟ اس نے کہا کھولو میں ہی بدحال ہوںدروازہ کھولا گیا اور اُس میںسے چار لڑکیاں آئیں جن کے چہرہ سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے وہ عورت اندر گئی اور وہ زنبیل اِن لڑکیوں کے سامنے رکھ دی ۔ میں کواڑوں کی درزوں سے جھانک رہا تھا۔ میں نے دیکھا اندر سے گھر بالکل برباد خالی تھا اس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں کو آوازدی کہ لو اِس کو پکا لو اوراللہ کا شکر ادا کرواللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پراختیار ہے اُسی کے قبضے میں لوگوں کے قلوب ہیں وہ لڑکیاں اِس کو کاٹ کاٹ کر آگ پر بھوننے لگیں مجھے بہت ضیق ہوئی ۔میں نے باہر سے آواز دی اے اللہ کی بندی !اللہ کے واسطے اِس کو نہ کھا وہ کہنے لگی تو کون ہے؟ میںنے کہا میں ایک پردیسی آدمی ہوں کہنے لگی اے پردیسی تو ہم سے کیا چاہتا ہے ہم خودہی مقدر کے قیدی ہیں، تین سال سے ہمارا نہ کوئی معین نہ مدد گار تو ہم سے کیا چاہتا ہے؟ میں نے کہا مجوسیوں کے ایک فرقہ کے سوا مر دارکا کھانا کسی مذہب میں جائز نہیں ۔وہ کہنے لگی ہم خاندانِ نبوت کے شریف (سیّد)ہیںاِن لڑکیوں کاباپ بڑاشریف تھا وہ اپنے ہی جیسوں سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا اِس کی نوبت نہ آئی اُس کا انتقال ہو گیا جو ترکہ اُس نے چھوڑا تھا وہ ختم ہو گیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ مُردار کھانا جائز نہیں لیکن اِضطرار میں جائز ہو جاتا ہے ،ہمارا چار دن کا فاقہ ہے۔ ربیع کہتے ہیں اِس کے حالات سن کر مجھے رونا آگیا اور میں روتا ہوا دل بے چین وہاں سے واپس ہوا اَور میں نے اپنے بھائی سے آکر کہا کہ میرااِرادہ تو حج کا نہیں رہا اُس نے مجھے بہت سمجھایاحج کے فضائل بتائے کہ حاجی ایسی حالت میں لو ٹتا ہے کہ اُس پر کوئی گناہ نہیں رہتا