ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
کسی کا نصاب پورا نہ ہوتو زکٰوة فرض نہیں۔ (٢) اگر کسی کے پاس صرف تین چار تولہ سونا ہے ۔ اُس کی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اُس سے زیادہ ہے لیکن چاندی یا چاندی کی کوئی بھی چیز اُس کے پاس نہیں ہے تو اِس صورت میں اُس پر زکٰوة فرض نہیں ہے۔ (٣) کسی کے پاس کچھ تجارتی مال ہے جو نصاب کے برابر نہیں ہے لیکن اِس کے علاوہ کچھ سونا یاچاندی بھی اُس کے پاس ہے تو اگر سب کے ملانے سے نصاب پورا ہوجاتا ہے تو اِس مجموعہ پرزکٰوةواجب ہو گی ورنہ نہیں ۔ زکٰوة کب اَدا کی جائے : (١) جب بقدر ِنصاب مال پر جو تمہاری مِلک میںآیا ہے چاند کے حساب سے سال پورا ہو جائے تو زکٰوة اَدا کر دو،دیر لگانا اچھا نہیں ہے۔ (٢) ہاں اگر بقدرِنصاب مال کے مالک ہونے کے بعد اگر سال گزرنے سے پہلے زکٰوة اَدا کردو تو یہ بھی جائز ہے۔ نیت : جب زکٰوة کی رقم کسی کو دویا کم اَز کم زکٰوة کی رقم علیحدہ کرکے رکھو ،اُس وقت یہ نیت کرنا ضروری ہے کہ یہ مال میں زکٰوة میں دیتا ہوں یا زکٰوة کے لیے علیحدہ کرتا ہوں۔ اگر زکٰوة کا خیال نہیں تھا اور کسی کو روپیہ دے دیا ، دینے کے بعد اُس کو زکٰوة کے حساب میں لگالیا تو زکٰوة ادا نہ ہو گی ۔ اِسی طرح کسی کو قرض دیا تھا اَب اُس کو زکٰوة کے حساب میں لگا کر معاف کرنا چاہتے ہوتب بھی زکٰوة ادا نہ ہوگی ۔اگر اداء قرض میں اُس کی امداد کرنی ہے تو اِس کی صورت یہ ہے کہ اُتنی رقم اُس کو زکٰوة کی نیت سے دے دو پھر اُس سے اپنے قرض میں یہ رقم وصول کرلو ۔ ( بقیہ حاشیہ ) کیونکہ چاندی کا نصاب ٥٢ تولے ٦ماشے ہے جو پورا ہو گیا یامثلاً چھ تولہ سونا اور سو تولہ چاندی ہے جس کی قیمت ایک تولہ اور چھ ماشہ سونا ہوتی ہے تو سونے کا نصاب سات تولہ چھ ماشہ پورا ہو گیا ۔اَس میں اختیار ہے کہ سونے کا چالیسواں حصہ یا اُس کی قیمت دو،یاچھ تولہ سونے کی بھی چاندی سے قیمت لگا لو اور جو مجموعی رقم چاندی کی ہوتی ہے اُ س کا چالیسواں حصہ دے دو۔