ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ۔(سورۂ بقرہ :٢٦١ ) ''وہ لوگ جو اپنا مال راہ ِ خدا میں خرچ کرتے ہیں اُس خرچ کی مثال اُس دانہ کی ہے جس میں سات خوشے نمود ار ہوئے ،ہر خوشے میں سودا نے اور اللہ جس کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔'' بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ملکی ضرورتوں کے لیے حکومتیں پبلک سے قرض لیا کرتیں ہیں ۔دینی اور ملی ضرورتوں کے لیے جو رقم صرف کی جاتی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ ہمارے اُوپر قرض ہے ہم اُس کا انعام بہت بڑھا چڑھا کر دیں گے۔ اللہ تعالی کا اِرشاد ہے : مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہ لَہ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً وَّاللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ o (سورۂ بقرہ : آیت ٢٤٥ ) ''کون ہے جو اللہ کو اچھا قرضہ قرض دے کہ اللہ تعالیٰ اُسے بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر دے اوراللہ ہی تنگی کرتااور فراخی دیتا ہے اور تم سب اُسی کی طرف لوٹا ئے جائو گے۔'' یعنی جو کچھ ہے اُسی کا ہے ،تم خود بھی اُسی کے ہو ۔چند روزہ زندگی کے بعد اُسی کی طرف لوٹ کر جائو گے پھر دل تنگی اور بخل کیسا ۔اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرو۔ تعریف ،حکم اور شرطیں تعریف : زکٰوة مال کے اُس خاص حصے کو کہتے ہیں جس کو خدا کے حکم کے موافق فقیروں ، محتاجوں وغیرہ کو دے کر اُنہیں مالک بنا دیا جائے۔ حکم : زکوة دینا فرض ہے ۔قرآن مجید کی آیتوں اور آنحضرت ۖ کی حدیثوں سے اِس کی فرضیت