ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
بھی اِسی طرح گزارہ کرتی تھیں، بھلا اُن کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ خود آرام اُٹھالیں اور سیّد عالم ۖ کو تکلیف میں دیکھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ سیّد ِ عالم ۖ جس بستر پر سوتے تھے وہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اَور جس تکیہ پر سہارا لگا کر بیٹھتے تھے وہ بھی اِسی طرح کا تھا۔(مشکوة ) آنحضرت ۖ کے مبارک گھرانے میں کپڑے بھی زیادہ نہ تھے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ۖ کا کپڑا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پاک کیا تو آپ ۖ اِسی کو پہنے ہوئے مسجد میں نماز کے لیے تشریف لے گئے اور دھونے کی تری اِس میں موجود رہی ۔(طحاوی شریف) ایک صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باندی بھی وہیں موجود تھی جو پانچ درہم کا کرتا پہنے ہوئی تھی۔ اِس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ذرا میری اِس باندی کو دیکھو وہ اپنے کو اِس سے بالا تر سمجھتی ہے کہ گھر کے اندر اِس کرتے کو پہنے اور ہمارا پچھلا زمانہ سیّد ِ عالم ۖ کی موجود گی میں یہ تھا کہ اِس قسم کے کُرتوں میں کا ایک کُرتا میرے پاس تھا جو مدینے میں ہر شادی کے وقت دُلہن کو سجانے کے لیے مجھ سے مانگا جاتا تھا پھر رُخصتی کے بعد واپس کر دیا جاتا تھا۔ (مشکوة شریف )۔ مشورہ لینا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑی صاحب ِ فہم و فراست تھیں۔اچھے اچھے سمجھدار اُن سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں شام اور مصر کو مال لے جا کر تجارت کرتا تھا ایک مرتبہ میں تجارت کے اِرادہ سے عراق کو اپنا مال لے گیا۔ (واپس آکر) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ سنایا کہ میں پہلے تجارت کے لیے اپنا مال شام لے جایا کرتا تھا اِس مرتبہ عراق کو لے گیا(اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ) ۔اِس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کیوں(بلاوجہ) اپنی (سابقہ) تجارت گاہ کو چھوڑ تے ہو،ایسا مت کرو کیونکہ سیّد ِ عالم ۖ سے میں نے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کسی ذریعہ سے رزق کے اسباب پیدا فرمادیوے تو جب تک (خود ہی) وہ سبب (کسی وجہ سے ) نہ بدل جاوے یا (نفع کے علاوہ ) دُوسرا رُخ اختیار نہ کر لیوے تو اُس کو نہ چھوڑ۔( ابن ماجہ)۔(جاری ہے) ض ض ض