ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
چچا ، پھوپی، خالہ ، ماموں ، ساس ، سُسر ،داماد وغیرہ میں سے جو حاجت مند اور مستحق ہوں ، اُنہیں دینے میں بہت زیادہ ثواب ہے۔ اِن کے بعد اپنے پڑوسیوں یا اپنے شہر کے لوگوں میںسے جو زیادہ حاجت مند ہو اُسے دینا اَفضل ہے ۔پھر جس کے دینے میں دین کا زیادہ نفع ہو جیسے علم دین کے طالب ِعلم ۔ ادا ء ِزکٰوة کا طریقہ : (١) جس قدر زکٰوة واجب ہوئی ہے وہ مستحق لوگوں کو خاص خدا کے واسطے زکٰوة کی نیت سے دے دو اور اُسے مالک بنادو۔ (٢) مالِ زکٰوة سے فقیروں کے لیے کوئی چیز خرید کر اُن کو تقسیم کردو تو یہ بھی جائز ہے۔ (٣) کسی شخص کو اپنی طرف سے وکیل بنا کر زکٰوة کی رقم دے دو تاکہ وہ مستحق لوگوں پر خرچ کر دے یہ بھی جائز ہے۔مگرکسی خدمت یا کسی کام کی اُجرت میں زکٰوة دینا جائز نہیںہے۔ البتہ عامل زکٰوة یعنی جو شخص زکٰوة وصول کرنے پر مقرر ہوتا ہے ،قرآن شریف میںاُس کو بھی مستحق لوگوں میںشمار کرایا ہے لہٰذا اُس کی تنخواہ مال زکٰوة میں سے ادا کرنی جائزہے۔ مالک مکان کب زکٰوة لے سکتا ہے ،کب نہیں لے سکتا : کسی شخص کے پاس ہزاردوہزار روپیہ کا مکان ہے جس میںوہ رہتاہے یا اُس کے کرایہ سے اپنی گزر کرتا ہے۔اُس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی مال نہیں بلکہ تنگ دست ہے ، اُس کو زکٰوة دی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مکان اُس کی حاجت ِاصلیہ میں داخل ہے ۔البتہ جب حاجت ِاصلیہ سے کوئی مال زائد ہواور وہ بقدرِ نصاب ہوتو اُسے زکٰوة لینی جائز نہیں۔ اَداء زکٰوة میں غلطی : اگر کسی کو مستحق سمجھ کر زکٰوة دے دی ،بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سیّد تھا یا مالدار تھا یا اپنے ماں باپ یا اَولاد میںسے تھا تو زکٰوة ادا ہو گئی پھر سے زکٰوة دینی واجب نہیں ہے۔