ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
بھی جائز ہے اور ضرورت مندوں کی سہولت اگر اسی میںہے تو یہی بہتر ہے کہ اِس کی قیمت دے دو ۔ (٢) اِسی طرح اگر تمہارے پاس چاندی کے زیور یا برتن ہیں جن کا وزن مثلاً سو تولہ ہے تو فرض تو یہ ہے کہ ڈھائی تولہ چاندی دے دو لیکن اگر ڈھائی تولہ چاندی کی قیمت کا کپڑا یا غلہ خرید کر دیدو وہ بھی جائز ہے ۔ (٣) اس موقع پر آنحضرت ۖ کا یہ اِرشاد یاد رکھو کہ آپ ۖ نے فرمایا ہے کہ بہتر اور افضل وہ ہے جو ضرورت مند کی ضرورت کے مطابق ہو اَور جس میں اُس کا نفع زیادہ ہو ۔ مثلاً جو بھوکا ہے اُس کو غلہ دو ،ننگے کو کپڑا دو ۔ اگر بھوکے ننگے کو کسی تاجر نے کتابیں دے دیں تو اُس کی زکٰوة تو ادا ہو جائے گی مگر ضرورت مند کی ضرورت پوری نہ ہوگی وہ اپنی ضرورت پوری کرنا چاہے گا تو اِن کتابوں کو آدھی تہائی قیمت پر بیچے گا،اِس سے اُس کا نقصان ہو گا۔ (٤) یہ بھی یاد رکھو کہ چاندی کی زکٰوة اگر چاندی سے ادا کی جائے گی تو قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ وزن کا اعتبار ہو گا ۔مثلًاکسی کے پاس خالص چاندی کے سو روپے ہیں ۔سال گزرنے کے بعد اُسے ڈھائی تولہ چاندی دینی چاہیے۔ اب اُسے اختیار ہے کہ وہ خالص چاندی کے دو روپے اور ایک خالص چاندی کی اَٹھنی دے دے یا چاندی کا ٹکڑا ڈھائی تولہ کا دے دے تو زکٰوة ادا ہو جائے گی ۔ لیکن اگر چاندی کا ٹکڑا ڈھائی تولہ کا قیمت میں دو روپے کا ہو تو دو روپے دینے سے زکٰوة ادا نہ ہوگی اور اگر ڈھائی تولہ خالص چاندی تین روپے کی ہو تو زکٰوة میں تین روپے دینے ہوں گے ۔ہاں اگر روپے بھی خالص چاندی کے ہوں تو ڈھائی روپے یعنی دو روپے خالص چاندی کے اور ایک اَٹھنی خالص چاندی کی زکٰوة میں دی جائے گی۔ ادُھورے نصاب : (١) کسی کے پاس تھوڑی سی چاندی ہے اور تھوڑا ساسونا، دونوں میںسے نصاب کسی کا پورا نہیں ہے تو اِس صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر دیکھو کہ دونوں میںسے کسی کا نصاب پورا ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر کسی کا نصاب پورا ہو جائے تو اُسی کی زکٰوة دو ٢ اور دونوں میں سے ٢ مثلاً چالیس تولے چاندی ہے اور دو ماشہ سونا جس کی قیمت دس تولہ چاندی ہوتی ہے ۔اس صورت میں زکٰوة واجب نہیں ہو گی کیونکہ دونوں کی مجموعی قیمت پچاس تولہ چاندی ہوتی ہے جو نصاب سے کم ہے ۔ ہاں اگر چالیس تولہ چاندی کے ساتھ تین ماشہ سونا ہو جس کی قیمت پندرہ تولہ چاندی ہوتو زکٰوة فرض ہو جائے گی (بقیہ حاشیہ اَگلے صفحہ پر)