ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
اُس کا کھانا پینا حرام کا، لباس حرام، حرام غذا سے پر ورش پایا ہوا (جسم )، اِن سب چیزوں کے ہوتے ہوئے کیسے اُس کی پکار اللہ کے ہاں سنی جائے گی۔ (مشکوة شریف ص ٢٤١) ایک جگہ اِرشاد فرمایا تاجر (قیامت کے دن) فاجر کی حیثیت سے اُٹھائے جائیں گے سوائے اُن کے جو اللہ سے ڈرتے رہے لوگوں سے بھلائی کرتے رہے اور اپنی قسموں اور باتوںمیں سچ کہتے رہے۔ (مشکوة شریف ص ٢٤٤) نبی علیہ السلام نے ایک اور جگہ اِرشاد فرمایا : صاحب ِ حیثیت کا ٹال مٹول کرنا اُس کی عزت کی پامالی کو حلال کر دیتا ہے اُسے برا کہا جا سکتا ہے جیل میں بند کرایا جا سکتا ہے ۔(مشکوة شریف ص ٢٥٣)گویا وہ ایک باعزت شہری کی حیثیت کھو بیٹھتا ہے۔ سفر کے اختتام پر جب لاہور آیا تو ڈاکٹر امجد صاحب نے میرے ایک دوست تاجر کے بارے میں بتلایا کہ اُنہوں نے سلام کہلایا ہے اور یہ کہ وہ پروگرام کے مطابق پچھلے ماہ عمرہ پر جانے کا اِرادہ آخر وقت پر ترک کر چکے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کیوں ؟تو اُنہوں نے کہا کہ وہ بتلا رہے تھے کہ میرے ماموں بہت غریب ہیں اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں اُنہیں رقم کی بہت ضرورت تھی میں نے بجائے عمرہ پر یہ رقم خرچ کرنے کے اُن پر خرچ کردی۔ یہ بات سن کر بے حد خوشی ہوئی اِس گئے گزرے دور میں بھی اللہ کے ایسے نیک بندے موجود ہیں جو حقوق کی اہمیت جانتے ہوئے اِ س پر عمل کی سعادت حاصل کرکے گھر بیٹھے نہ جانے کتنے حج اور عمروں کا ثواب اللہ کے در بار سے حاصل کر لیتے ہیں جبکہ اِن کے با لمقابل کتنے ہی لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر حج او رعمرے کرتے ہیں مگر نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہوتے ہیں۔ اُن دوست کا یہ ایثار سن کر مجھے ایک سچا اور سبق آموزواقعہ یاد آگیا جس کو حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے فائدہ کی اُمید پر اُس کو نقل کرنا مناسب معلوم ہو رہا ہے،قارئین ملاحظہ فرمائیں : '' ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے جارہا تھا میرے ساتھ میرے بھائی تھے اور ایک جماعت تھی جب ہم کوفہ میں پہنچے تو وہاں ضرور یاتِ سفر خریدنے کے لیے بازاروں