ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2009 |
اكستان |
|
بہت سارے ہیں اِس لیے موازین فرمایا دیا اِس کو تو یہ توجیہات آئی ہیں اس کی مختلف ۔ اور وَاَنَّ اَعْمَالَ بَنِیْ اٰدَمَ وَقَوْلَھُمْ یُوْزَن صراحت فرمادی اِس کی کہ بنی آدم کے اعمال اور اُن کے جو قول ہیں باتیں ہیں اُن کا وزن کیا جائے گا۔ یہ سب اعراض ہیں اَور اعراض کا وزن ہوتا ہے نئی بات نہیں ہے شروع سے ہوتا آیا ہے ،اعراض کی کمی بیشی ناپ تول یہ ہمیشہ سے رہی ہے اِس پر فیصلے ہوئے ہیں شروع سے پہلوانوں کا مقابلہ ہوتا رہاہے اور جیتنے والے کو جو جیت جاتا ہے اُس کو اخیر میں کہتے ہیں کہ یہ طاقت میں زیادہ ہے۔تو طاقت کا وزن ہوکر اُس کو نمبر ایک والے میں کھڑا کر دیتے ہیں حالانکہ جو ہارا ہوتا ہے وہ وزن میں بھی زیادہ ہوتا ہے بعض دفعہ اُس سے اور ڈیل ڈول میں بھی زیادہ ہوتا ہے جو جیتا ہے اُس کے مقابلے میںلیکن اُسے نمبر دو پر کھڑا کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہاں دُنیا ہی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ہر وزن میں زیادہ ہے لیکن اُسے وہ فیل کر رہے ہیں اور اُس کے جو اعراض تھے جو ایک عارضی چیز ہے عرض ہے اُس کو اہمیت دی اور اُس کے بل بوتے پر یہ فیصلہ دیا کہ یہ جیت گیا۔ تو یہ شروع سے آ رہا ہے آج نہیں ہے کہ سائنس نے کوئی کرشمہ کردیا اور سائنس کو ئی کمال دکھا رہی ہے وزن ِ اعراض ہونے لگاسائنس سے ہٹ کر بھی وزن ِ اعراض شروع سے چلا آرہا ہے پہلوانوں کا مقابلہ، گھوڑوں کا مقابلہ، گھڑ دَوڑ کا مقابلہ نبی علیہ السلام کراتے تھے۔ اُس میں کونسا گھوڑا جیت رہا ہے کونسا نہیں جیت رہا، کونسا نمبر اوّل آرہا ہے کونسا نمبر دو آرہا ہے، سب اعراض ہوتے تھے حالانکہ بعض دفعہ وہ گھوڑا زیادہ جسیم ہوتا تھا جو پیچھے رہ جاتا تھا اور جو آگے بڑھ جاتا تھا وہ لاغر سا ہوتا تھا لیکن اُس کو کہا جاتا تھاکہ یہ جیت گیا اور اِسے کہا جاتا ہے یہ ہار گیا۔ تو یہ کیا ہوا؟ یہ بھی اعراض کا وزن ہے۔ تو وزن ِ اعراض ایسی چیز ہے کہ جب سے اِنسان نے دُنیا میں قدم رکھا وزن ِ اعراض ہورہا ہے اور اگر دُنیا میں اِنسان نہ بھی آتا تو یہ بات ایک حق تھی کہ اعراض کا وزن ہو سکتا ہے۔ توعقل پر پردہ پڑا معتزلہ کے اور وہ بہک گئے شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور وزن ِ اعمال کا اِنکار کردیا۔ امام بخاری رحمةاللہ علیہ اُن کا رد فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں وَقَالَ مُجَاہِد اَلْقُِسْطَاسُ اَلْعَدْلُ بِالرُّوْمِیَّةِ رُومی زبان میں عدل کو کہتے ہیں اور عربی میں بھی عدل کو کہتے ہیں تو رُومی اور عربی دونوں میںایک معنی دونوں کے ہوجاتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں وَیُقَالُ اَلْقِسْطُ مَصْدَرُ الْمُقْسِطِ اصل میں وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ یہ باب مزید سے جب آئے تو اِس کا معنی عدل کے ہے اور جب مجرد سے آئے تو اِس کا معنی جور(ظلم) کے ہے۔ تو اعتراض یہ ہوا