ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
آسمان کی طرف جو بادل ہیں وہاں تک پہنچ جائیں ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِیْ پھر تو مجھ سے اُن کی معافی چاہے تو غَفَرْتُ لَکَ ١ میں بخش دُوں گا۔ اَور بخشنے میں ایسی چیزیں آجاتی ہیں کہ جن کا تعلق دُوسرے بندوں سے ہو، حدیث شریف میں آتا ہے مثال کے طور پر کہ اگر کسی آدمی پر قرض ہے تو وہ قرض اُسے اَدا کرنا پڑے گا چاہے دُنیا میں خود اَدا کردے چاہے وصیت کرجائے اَور اگر نہیں اَدا کیا ہے تو قیامت میں اَدا کرنا پڑے گا۔ وہ شہید کا بھی معاف نہیں، (اس کے علاوہ دُوسرے) گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ یہ اَلسَّیْفُ مَحَّائ لِّذُّنُوْبِ اَوْکَمَاقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یہ تلوار جو ہے یہ گناہوں کو مٹادیتی ہے صاف کردیتی ہے اَور کہیں آتا ہے کہ کَفٰی بِبَارِقِ السَّیْفِ مَحَّائً لِّذُّنُوْبِ اَوْکَمَاقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وہ جو تلوار کی چمک ہے وہ گناہوں کو معاف کرنے کے لیے کافی ہے، اِس طرح کے اِرشادات موجود ہیں۔ تو کئی طرح کا جہاد ہے جو جہاد ہی شمار ہوتا ہے مگر سب سے اعلیٰ درجہ اُس کا ہے کہ جو تبلیغ ِ اسلام کے لیے ہو دفاعی جہاد بھی ہوسکتا ہے وطن کے دفاع کا بھی ہوسکتا ہے اُس میں جو مارے جائیں گے وہ بھی شہید ہی ہوں گے پھر سب سے اعلیٰ اَور افضل وہ ہے جو حدیث شریف میں آیا ہے لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا اِس لیے لڑرہا ہے کوئی آدمی کہ اللہ کے کلمے کی سربلندی ہو اِس لیے جان دے رہا ہے اَور لے رہا ہے یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ مارتے بھی ہیں مارے بھی جاتے ہیں۔تو ہے یہ بات کہ جب اِنسان میدانِ جہاد میں ہو خدا کے لیے تو اگرچہ تلوار اپنے کو نہ بھی لگے مگر اُس کی چمک بھی بڑی چیز ہے اَور اگر اپنے کو لگ رہی ہے تو جس وقت اپنے اُوپر آتی ہوئی دیکھ رہا ہے تلوار وہ لمحہ جو ایک سیکنڈ سے بھی کم ہوتا ہے وہ کیسے گزرتا ہے اَور کیا کیفیت بدن میں پیدا کرجاتا ہے وہ بس کافی ہے گناہوں کو مٹانے کے لیے۔ وضاحت کے ساتھ یا بغیر وضاحت حقوق العباد بندوں ہی سے معاف کرانا ہوں گے : لیکن قرض تو رہتا ہے اَور جیسے قرض رہتا ہے ویسے ہی حقوق بھی رہتے ہیں یعنی کسی کو گالی دی وہ حق باقی رہے گا کسی پر اِلزام لگایا وہ باقی رہے گا کسی طرح کی بھی حق تلفی کسی دُوسرے آدمی کی کی ہو تو وہ اُس آدمی سے معافی لینی پڑتی ہے چاہے واضح کرے اَور معافی چاہے ،چاہے واضح نہ کرے اَور معافی چاہے دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ وضاحت نہیں کرتا کہتا ہے کہ آپ کے حق میں تقصیرات ہوتی رہی ہیں وہ معاف کرالیتا ہے اُس سے ١ مشکٰوة شریف ص ٢٠٤