ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
نہ کرے لیکن میری یہ اِلتجا قبول نہیں ہوئی۔ ف : مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں حضورِ اکرم ۖ کی نماز کے دو مختلف واقعے ذکر کیے گئے ہیں۔ پہلا واقعہ جو مسجد ِاِجابہ میں پیش آیا ،اُس سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اُمت کے حق میں تین دُعائیں کی تھیں جن میں سے دو قبول ہوئیں اور ایک سے روک دیا گیا، قبول ہونے والی دو دُعائیں یہ تھیں (١) اُمت کو عام قحط سے ہلاک نہ کیا جائے (٢) اُمت کو غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے اور جس دُعاء سے منع کردیا گیا وہ یہ تھی کہ اُمت آپس میں دست و گریباں نہ ہو۔ دُوسرا واقعہ جو کسی شب میں پیش آیا اُس سے بھی معلوم ہورہا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اُمت کے حق میں تین دُعائیں کی تھیں جن میں سے دو قبول ہوئیں اور ایک سے منع کردیا گیا۔ قبول ہونے والی دو دُعائیں یہ تھیں (١) اُمت کو عام قحط سے ہلاک نہ کیا جائے (٢) اُمت پر کوئی غیر مسلم دُشمن مسلط نہ کیا جائے، اور جس دُعاء سے منع کردیا گیا وہ یہی تھی کہ اُمت آپس میں لڑلڑکر تباہ و برباد نہ ہو ۔دونوں واقعوں میں کی جانے والی دُعائوں میں سے صرف درمیان والی دُعاء میں فرق ہے کہ پہلے واقعے میں غرق نہ کرنے کا ذکر ہے اور دُوسرے میں غیر مسلم دُشمن کو مسلط نہ کرنے کا ذکر ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں سے اَمن عطا فرمایا ہے : عَنْ اَبِیْ مَالِکٍ یَعْنِی الْاَشْعَرِیَّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اِنَّ اللّٰہَ اَجَارَکُمْ مِّنْ ثَلٰثِ خِلَالٍ اَنْ لَّایَدْعُوَ عَلَیْکُمْ نَبِیُّکُمْ فَتَھْلِکُوْا جَمِیْعًا وَاَنْ لَّایَظْھَرَ اَھْلُ الْبَاطِلِ عَلٰی اَھْلِ الْحَقِّ وَاَنْ لَّاتَجْتَمِعُوْا عَلٰی ضَلَالَةٍ ۔(سنن ابی داود ج٢ ص ٢٢٨ اول کتاب الفتن، ذکر الفتن ودلائلھا۔ مشکٰوة ص ٥١٣) حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا : (مسلمانو) اللہ تعالیٰ نے تمہیں تین چیزوں سے اَمن دے دیا ہے۔ ایک تو یہ کہ تمہارے نبی تمہارے لیے ایسی بد دُعاء نہیں کریں گے کہ جس سے تم سارے کے سارے ہلاک ہوجائو۔ دُوسرے یہ کہ اہل ِ باطل اہل ِ حق پر غالب نہیں آئیں گے۔ تیسرے یہ کہ تم سب کے سب گمراہی پر جمع نہیں ہوگے۔