ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2007 |
اكستان |
|
٭ ''صراط ِمستقیم ''ہی ملفوظات حضرت سید احمد صاحب شہید رحمتہ اللہ علیہ ہے۔اِن ہی ملفوظات کو ترتیب دے کر حضرت شاہ اسمٰعیل صاحب شہید رحمتہ اللہ علیہ نے تالیف کرکے پھرحضرت سید صاحب کو سنایا ہے، بعد میں شائع کیا ہے۔ ٭ قضاء صرف فرائض اور وتر کی ہوگی سنن مؤکدہ بعد از خروجِ وقت نوافل ہوجاتی ہیں جن کی قضاء نہیں ۔اِلَّا اَنْ یَّشَائَ الْاِنْسَانُ بِنَفْسِہ۔ ٭ کلام کا تالیف کرنا حقیقتہً قلب کا کام ہے،زبان توصرف اُس کی ترجمانی کرنے والی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شاعر کہتا ہے۔ اِنَّمَا الْکَلَامُ لَفِی الْفُؤَادِ وَاِنَّمَا جُعِلَ اللِّسَانُ عَلَی الْفُؤَادِ دَلِیْلًا اس لیے اصل کلا م کلامِ نفسی ہوا ،جو کہ قلب اور فواد کا کلام ہے،زبانی الفاظ اور کاغذی نقوش اور تخیلی کلمات جو کہ خرانۂ خافظہ میں محفوظ ہو گئے ہیں سب کے سب اِسی کلام ِنفسی کے دوال ، ظلال اور آثار ہیں۔ اِن پر اطلاق کلام ِثانیا وبالعرض اور مجازاً ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ِعلم اور صفت ِکلام سے جو کہ مثل دیگر صفات حقیقًہ ازلی میں قرآن کو تالیف فرمایا ،اِس لیے معانی اور الفاظ قدیم ہوں گے اور تلفظ مثل تحریر ونزول وغیر حادث ہو گا ۔ان الفاظ میں ازل میں تقدم اور تاخر صرف ذاتی ہو گا اور زبانی نہ ہو گااور ہمارے تلفظ میں قصورِ آلہ کی وجہ سے زمانی بھی ہوجائے گا۔ اس لیے کلام لفظی کو حادث کہنا خلاف تحقیق ہو گا، صرف تلفظ حادث ہے کلام ِنفسی حادث نہیں ہے،اور کلام ِلفظی بھی حادث نہیں ہے ۔فصلہ بحر العلوم فی فواتح الرحموت۔ ٭ قرآن شریف میں صرف احکام ہی کا بیان نہیں ہے اِس میں تحدی اور اِعجاز بھی ہے، اِس میں قوت ِتاثیر بھی اعلیٰ پیمانہ کی ہے ۔ ٭ غفلتوں کودُور کرنے ولا ،قلوب اور اَرواح کو مانجنے والا،اُن کو رنگ دینے والا اُس میں رقت اور خشیت پیدا کرنے والا،اُن سے قساوت اور تاریکی اور سیاہی آثام دُور کرنے والا ملائکة اللّٰہ اور سکینت کو کھینچ کرلانے والارضائے باری سبحانہ وتعالیٰ کا موجب یہ قرآن ہے۔(جاری ہے)