ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
رجب کے روزوں سے متعلق ایک اہم علمی تحقیق : بعض حضرات نے رجب کے مہینے اوراُس کے مختلف دنوں کے روزوں سے متعلق احادیث وروایات کے حوالہ سے عجیب وغریب فضائل ذکرکیے ہیں ۔ مگر اکثر محدثین نے خاص رجب کے حوالے اور اُس کے روزوں کی فضیلت وارد ہونے والی احادیث اورروایات کا سختی سے انکار کیا ہے اوراُن کو حد درجہ ضعیف بلکہ موضوع تک قرار دیا ہے ۔اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تو اِس بارے میں مستقل رسالہ موجود ہے''تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب'' جس میں موصوف نے تفصیل کے ساتھ اس بارے میں وارد شدہ احادیث وروایات پر جرح اورتنقید کی ہے ، اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ''ماثبت بالسُنة فی ایام السَنَة ''میں بھی اِس قسم کی احادیث پر محدثین کی جرح کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام بحث خاص رجب کے حوالے سے وارد شدہ مستقل خاص خاص عجیب وغریب فضائل کے بارے میں ہے۔ مگر جہاں تک رجب کے مہینے کی اپنی ذاتی فضیلت اوراُس میں بوجہ اُس کے حرمت والا مہینہ ہونے کے اصولی درجہ میں روزے کی استحبابی فضیلت کا تعلق ہے وہ ایک مستقل اورجدا مسئلہ ہے ، جو دوسرے اصولوں سے ثابت ہے ۔ نیز اگر اس قسم کی تمام روایات کو جمع کرکے رجب کے مہینے میںروزوں کا مستحب ہونا تسلیم کیا جائے تو بھی گنجائش ہے جیسا کہ ''شب برأت ''کی فضیلت کا معاملہ ہے کیونکہ ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہو سکتا ہے جیساکہ محدثین نے لکھا ہے ، نیز حضرات ِمحدثین او رفقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اِس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اُس کی کمزوری کسی درجہ میں دُور ہو جاتی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ خاص رجب کے روزوں کی جو مختلف اور عجیب وغریب فضائل والی احادیث وارد ہیں وہ ضعیف ہیں لیکن رجب کے مہینے یا اُس کے روزوں کی مستحب درجہ میں فضیلت شریعت کے ایک اصول اورکلیہ کے تحت داخل ہے، اوروہ ماہِ رجب کا حرمت والے مہینوں میں سے ہونا ہے اورحرمت والے مہینوں میںعبادت کی فضیلت شریعت سے ثابت ہے، اورمحدثین کا اصول بھی ہے کہ جو ضعیف حدیث شریعت کے کلیہ میںداخل ہو اُس کو قبول کیا جائے گا ۔ اوربعض احادیث میں رجب کے روزوں کی جو ممانعت آئی ہے ،مثلاً : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ ۖ نَھٰی عَنْ صِیَامِ رَجَبَ (سنن ابن