ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
سلسلہ نبی علیہ الصلٰوة والسلام تک جاملتا ہے ۔ ایک اہم اصول : حدیث شریف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک اہم چیز کی طر ف توجہ دلائی ہے اور بڑی اہم ہدایت فرمائی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم اگر کسی کے طریقے پر چلنا چاہتے ہو،کسی کے عمل سے راہنمائی حاصل کرنی چاہتے ہو تواُن لوگوں کے طریقے پر چلو جو دُنیا سے اِس حال میں چلے گئے کہ اُن کا عمل صالح تھا اُن کا علم نافع تھا اور اُن کا خاتمہ ایمان پر ہو گیا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ اِس قابل ہیں کہ اِن کی اتباع کی جائے۔اس بات کی طرف انھوں نے ر اہنمائی فرمائی اس حدیث شریف میں۔ اوروجہ بتلائی کہ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَةَ کیونکہ جب تک انسان زندہ ہے اُس پر فتنہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے کیونکہ کچھ معلوم نہیں کہ خداناخواستہ کب انسان بہک جائے اورگمراہ ہو جائے ۔گمراہی اور ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خاتمہ کا اعتبارہوتا ہے : اور یہ آدمی ہدایت پر گیا یا گمراہی پر گیا اِس کا پتاخاتمہ کے وقت پتا چلتا ہے، اس سے پہلے نہیں چلتا ۔ اَلْعِبْرَةُ بِالْخَوَاتِیْمِ اعتبار خاتمہ کا ہوتا ہے ۔ تو بہت نیک انسان بھی بہک سکتا ہے اورگمراہ ہو سکتا ہے اوربہت بُرا آدمی بھی موت سے پہلے پہلے صحیح ہوسکتا ہے ہدایت پر آسکتا ہے ،کوئی گارنٹی جب تک انسان زندہ ہے نہیں دی جاسکتی سوائے نبیوں کے کہ اُ ن کے بارے میں اعتماد اوریقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ جو کام کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں اوراُن کا خاتمہ بھی ایمان پر ہوگا اوراُن لوگوں کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے جن کے بارے میں نبیوں نے خبر دے دی ہے ۔ اِس کے علاوہ کسی کے بارے میں ہم یقین کے ساتھ کوئی دعوٰی نہیں کرسکتے اِس کی جرأت نہیں کرسکتے۔ توہمارے بزرگوں کا جو طریقہ رہا ہے وہ کسی کی تعریف اوراس قسم کے پروگرام یہ تب ہی پسند کرتے ہیں اورایسے ہی آدمی کے بارے میں پسند کرتے ہیں کہ جس پرفتنے کا دروازہ بند ہو چکا ہو۔ چنانچہ ہمارے اکابر کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تعریف پسند نہیں کرتے تھے اوراگر کسی کی زندگی میں تعریف کی جائے اوروہ خاموش رہے تو ایسے آدمی کو پسند نہیں کرتے تھے۔