ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
تھے۔ اُن کا جوتا تو بہت کم کوئی اُٹھاتا تھا ڈرتے ڈرتے ،اُن کی عادت ایسی تھی کہ جوتا اُٹھاتے ہوئے ڈرتا تھا آدمی۔ بس ہم تو اُٹھالیتے تھے، ہم سے اُٹھوا لیتے تھے اپنے بچوں سے لیکن اِس کے علاوہ کسی سے چاہے شاگرد ہوطالب علم ہو کچھ ہو، اپنے جوتے کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے ۔ اپنا جوتا خود اُٹھاتے تھے خود رکھتے تھے ، یہ چیزیںبہت اہم ہیں بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن اگر انسان اس پر عمل کرے تو اُس کو بہت بڑا مقام اللہ کے ہاں دے دیتی ہیں یہ چیزیں ۔اپنا احتساب ہے یہ اپنا محاسبہ ہے ۔ بخاری شریف اور انوارات : میں نے ایک دفعہ حضرت سے پوچھا کہ آپ جب بخاری شریف پڑھاتے ہیں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کبھی کبھی آپ کا خیال کہیں اورہوتا ہے ، تو کیا آپ مراقب رہتے ہیں ۔فرمایا کہ ہاں میں کوشش کرتا ہوں کہ مراقب رہوں۔ اور جب بخاری شریف کے آخری دن آتے تھے جن میں وہ ظہر بعد بھی عصر بعد بھی مغرب بعد بھی عشاء بعد بھی اور رات کے بارہ ایک بجے تک بخاری شریف پڑھاتے تھے تو اُن دنوں میںاُن کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا وہ ایسے ہوتا تھا جیسے اس میں ٹیوب کی روشنی جل رہی ہو ایسے چمکتا تھا چہرہ ۔حضرت نفیس شاہ صاحب مدظلہم بھی فرمایا کرتے تھے کہ جن دنوں میں حضرت بخاری شریف پڑھاتے ہیں تو حضر ت کا چہرہ بدل جاتا ہے ۔ایک صاحب آئے عرب عالم تھے تبلیغی جماعت میں یہاں آئے تو حضرت جو سامنے کمرہ ہے اُس میں بخاری شریف پڑھایا کرتے تھے ۔ رات کو دیر تک پڑھاتے تھے گیارہ بارہ بجے تک ، تووہ آئے اوردیکھا انھوں نے باہرہی سے دیکھا ،غالباً مجھے یہ بات قاری عثمان صاحب نے بتائی ہے مجھے صحیح یاد نہیں ہے۔ انھوںنے بتایا کہ وہ صاحب دیکھ کر آئے وہ عرب تھے ، کہنے لگے کَاَنِّیْ اَنْظُرُاِلٰی اِمَامْ مَالِک مجھے ایسے لگا جیسے میں امام مالک کو دیکھ رہا ہوں یہ عرب کے لوگ جو ہیں مصر وغیرہ کے ،یہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔اُن کے حالات سے آگاہ ہیں اُن کی مجلس کا حال سُنا ہوگا تواُسے جو رونق نظر آئی اُس مجلس کی اُس نے اُس کا اظہار اِن الفاظ میں کیا۔ مرید ین کی اصلاح وتربیت : حضرت تربیت بھی خوب فرماتے تھے ۔حضرت کے پاس ایک صاحب آئے اورانھوںنے آکر کہا کہ میرا دل چاہتا کہ مرجائوں اورزندہ نہ رہوں وہ اس حالت پر پہنچے ہوئے تھے اور انھوں نے یہ آیت پڑھی کہ بس یہ