ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
حضرت نے اپنی تعریف میں نظم رُکوادی : جب میں چھوٹا تھا اور حضرت سفر کیا کرتے تھے پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے توایک دفعہ خوشاب کی مسجد میں نظم پڑھی گئی جس میں حضرت کی تعریف تھی ۔حضرت موجود تھے اُس مجلس میں نہیں لیکن پاس کمرے میں موجود تھے جہاں جلسہ ہورہا تھا ۔اُس کے قریب وہیں سے حضرت نے آدمی کو بھیجا کہ اس سے کہو کہ یہ بالکل حرام کام ہے اور اُسے منع کرو، آدمی بھیج کر فوراً رُکوادی نظم، اپنی تعریف پسند نہیں فرمائی ۔ توآج کل جو دور چل رہا ہے اس میں ہمارے حضرات بھی بعض دفعہ جذباتی ہوجاتے ہیں اور دعوٰی کردیتے ہیں۔ تو میرا جو بیان ہوگا وہ حضرت کی شخصیت پر ہوگا اوراِس بیان میں کوئی دعوٰی نہیں ہوگا کیونکہ دعوٰی نہیں کر سکتا انسان کسی کے بارے میں، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمید کرسکتا ہے توقع کرسکتا ہے ، دعوٰی کسی شخص کے بارے میں نہیں کرسکتا ۔دعوے سے صرف اُس شخص کے بارہ میں کہا جاسکتا ہے جس کے بارہ میں نبی نے خبر دے دی ہو جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اُن کے بارے میں ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنت میں ہیں۔ حضرت عمر کے بارے میں دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنت میں ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، عشرہ مبشرہ یا اِن کے علاوہ اور مُبَشَّرْ بِالْجَنَّةْ جتنے حضرات ہیں دعوے سے کہہ سکتے ہیں اِس کے علاوہ کسی کے بارے میں نہ دعوٰی سے جنت کا کہہ سکتے ہیں نہ جہنم کا کہہ سکتے ہیں ۔ ایک مجلس کا واقعہ : ایک دفعہ خود حضرت رحمة اللہ علیہ کی مجلس کا واقعہ ہے کہ بیٹھے تھے اورگفتگو ہور رہی تھی ۔گفتگو کے دوران ملکہ ترنم نور جہاں کا ذکربھی آگیا تو کسی نے جو اُس مجلس میں بیٹھے تھے ، انھوں نے کہا وہ تو جہنمی ہے چھوڑو اِس کا ذکر۔ حضرت کو ناگوار گزری اُن کی یہ بات ۔ حضرت نے فرمایا یہ تو دعوٰی کردیا آپ نے اُس کے جہنمی ہونے کا، اِس کی تعلیمات نہیں آئیں ۔ ٹھیک ہے وہ فاحشہ عورت ہے گانے گاتی ہے عیاش عورت ہے لیکن اس کے خاتمہ کا آپ کو کیسے پتا چل گیا کہ اُس کا خاتمہ ایسے ہوگا کہ وہ جہنم میں جائے گی۔ کسی کے بارہ میں دوزخ کا یا جنت کا دعوٰی کوئی کرہی نہیں سکتا اور فرمایا کہ جو آدمی دعوے سے کسی کو جہنمی کہہ رہا ہے دوسرے لفظوں میں گویا وہ یوں کہہ رہا ہے