ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
(١) قرآن پاک کی آیت میراث : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ ........ اِلٰی .......۔ قَوْلِہ تَعَالٰی فَلاُمِّہِ الثُّلُثُ (پ ٤ رکوع١٣) اللہ تعالیٰ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے....... (اور پھر اولاد اورماں باپ کی وراثت کے احکام ذکر فرمائے گئے ہیں ) اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ یا اولاد اگر کافر بھی ہوں گے تب بھی ایک کی دوسرے کو میراث ملے گی ۔لیکن سنت نے بتلایا کہ اس آیت کا حکم اُن ہی ماں باپ اوراُن ہی بچوں کے لیے ہے جو مذہب میں ایک ہوں اگرمذہب ایک نہ ہوں گے تو یہ حکم نہ ہوگا اوراسی پر عمل چلاآرہا ہے۔ (٢) قرآن کریم میں ارشاد ہے : فَلا تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَےْرَہ ۔ (پ ٤ رکوع ١٣) اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے دیں ہیںتو اب اِس کے لیے وہ عورت حلال نہیں جب تک اُس کے سوا کسی خاوند سے نکاح نہ کرے۔ آیت سے بظاہر یہ معلوم ہو رہاہے کہ فقط نئے مرد سے نکاح کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائیگی لیکن سنت نے بتلایا کہ اس سے مراد عقد کے بعد تعلق زن وشوئی ہے اوراس کی تفسیر کے بارے میں حضرت رفاعہ کی اہلیہ کا واقعہ احادیث میں آتا ہے۔ (٣) حق تعالیٰ کاارشاد ہے : وَا لسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا ۔ (پ ٦رکوع ١٠) ''اورچوری کرنے والا مرد اورچوری کرنے والی عورت اُن کے ہاتھ کاٹ ڈالو''۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ہر چور کے لیے ہے چاہے اُس نے چھوٹی سے چھوٹی چیز چرائی ہو۔ لیکن سنت نے بتلایا کہ اس سے مراد وہ چور ہے کہ جس کی چوری کی مالیت چوتھائی دینارہو۔ حضرت عمران بن الحصین سے ایک شخص نے کہا کہ یہ کیا حدیثیں ہیں جو آپ لوگ ہم سے بیان کرتے