ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
کہ''اگرکسی نے زندہ پیر سے ملنا ہو تو جامعہ مدنیہ جا کر مولانا حامد میاں صاحب کی زیارت کرے''۔توحضرت سے ایک دفعہ میں نے خود پوچھا ،کچھ کتابیں پڑھیں میں نے اس میں کشف کے واقعات پڑھے ، طالب علمی کا زمانہ تھا تو میں نے پوچھا،حضرت آپ کو کشف ہوتا ہے کشف القبور ہوتا ہے تو فرمانے لگے کہ کشف ِقبور تو بہت ہوتا تھا اتنا ہوتا تھا کہ میں تنگ آگیا ،خدا کا شکر ہے کہ ختم ہو گیا ۔کشف کو عام طورسے ہمارے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن ہمارے بزرگ اوراسلاف کشف کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے وہ کسی اورچیز کواہمیت دیتے تھے۔ اہمیت کی چیز تواصل میں اللہ کا قرب اوراُس کی خوشنودی ہے کہ وہ حاصل ہو، کشف وکرامات مقصود نہیں ہوتے انھیں اہمیت نہیں دی جاتی ۔ایک درجہ میں ان کا درجہ ہے لیکن یہی سب کچھ نہیںہے تو اس کو اہمیت نہیںدیتے ہمارے بزرگ۔ روضۂ رسول ۖسے جواب اور عالم کشف میں بشارت : تو اس طرح کا ایک واقعہ ہے ایک دفعہ ایک صاحب بہت پرانی بات ہے حج پر تشریف لے گئے ۔ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ان سے فرمایا کہ جب آپ جائیں تومیرا روضہ اقدس پر سلام پیش کیجیے گا۔ غالباً یہ لاہور میں غلام دستگیر صاحب جو ہیں اُن کے وہ عزیز تھے ،تو وہ کہتے ہیں کہ میں جب گیا اورمیں نے روضہ اقدس پر جا کر سلام پیش کیا تو اس پر میںنے حضرت کے بارے میں جواب سُنا کہ ''اچھا بچہ ہے ''۔ تویہ ایک بہت بڑی بشارت تھی جو روضۂ اقدس سے نصیب ہوئی ۔ اور ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں پہلے حج میں گیا تھا تو وہاں روضہ اقدس کے پاس بیٹھ کر جب میں ذکر کرتا رہتا تھا خاموشی سے ،تو ذکر کے دوران حالت ِبیداری میں نبی علیہ الصلٰوة والسلام کی زیارت نصیب ہوئی اورآپ ۖنے ارشاد فرمایا اَنَا اُعَلِّمُکَ کُلَّ شَےْیٍٔ میں تمہیں سب کچھ سکھلا دوں گا ۔ ہندوستان سے افغانستان کے لیے روانگی : حضرت جب پاکستان تشریف لائے ہیں یہ ١٩٥٢ء کا واقعہ ہے تو ہندوستان سے حضرت اس لیے تشریف لائے تھے کہ افغانستان جائوں گا مقصد افغانستان جانا تھا اوروہاں پر حضرت نظام الدین بلخی رحمةاللہ علیہ کا مزار ہے جو ہمارے چشتی سلسلے کے بزرگ ہیں بہت بڑے ،تقریباً تیرہویں یا چودھویں نمبر پر آتے ہیں ۔ان سے حضرت کو رُوحانی مناسبت تھی رُوحانی تعلق تھا۔ اس رُوحانی مناسبت کی وجہ سے فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں بلخ میں جاکر رہوں ۔اس زمانے میں کھوکھرا پار سندھ کے راستے بارڈر کھلاہو اتھا وہاں سے آنا جانا ہوتا تھا تو تشریف لائے اورپشاور کی ٹرین میں بیٹھ گئے تو صبح کو ٹرین نے لاہور رُکنا تھا اورآگے پشاور جانا تھا ۔