Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005

اكستان

29 - 64
کہ''اگرکسی نے زندہ پیر سے ملنا ہو تو جامعہ مدنیہ جا کر مولانا حامد میاں صاحب کی زیارت کرے''۔توحضرت سے ایک دفعہ میں نے خود پوچھا ،کچھ کتابیں پڑھیں میں نے اس میں کشف کے واقعات پڑھے ، طالب علمی کا زمانہ تھا تو میں نے پوچھا،حضرت آپ کو کشف ہوتا ہے کشف القبور ہوتا ہے تو فرمانے لگے کہ کشف ِقبور تو بہت ہوتا تھا اتنا ہوتا تھا کہ میں تنگ آگیا ،خدا کا شکر ہے کہ ختم ہو گیا ۔کشف کو عام طورسے ہمارے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن ہمارے بزرگ اوراسلاف کشف کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے وہ کسی اورچیز کواہمیت دیتے تھے۔ اہمیت کی چیز تواصل میں اللہ کا قرب اوراُس کی خوشنودی ہے کہ وہ حاصل ہو، کشف وکرامات مقصود نہیں ہوتے انھیں اہمیت نہیں دی جاتی ۔ایک درجہ میں ان کا درجہ ہے لیکن یہی سب کچھ نہیںہے تو اس کو اہمیت نہیںدیتے ہمارے بزرگ۔
روضۂ رسول  ۖسے جواب اور عالم کشف میں بشارت  : 
	تو اس طرح کا ایک واقعہ ہے ایک دفعہ ایک صاحب بہت پرانی بات ہے حج پر تشریف لے گئے ۔ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ان سے فرمایا کہ جب آپ جائیں تومیرا روضہ اقدس پر سلام پیش کیجیے گا۔ غالباً یہ لاہور میں غلام دستگیر صاحب جو ہیں اُن کے وہ عزیز تھے ،تو وہ کہتے ہیں کہ میں جب گیا اورمیں نے روضہ اقدس پر جا کر سلام پیش کیا تو اس پر میںنے حضرت کے بارے میں جواب سُنا کہ ''اچھا بچہ ہے ''۔ تویہ ایک بہت بڑی بشارت تھی جو روضۂ اقدس سے نصیب ہوئی ۔ اور ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں پہلے حج میں گیا تھا تو وہاں روضہ اقدس کے پاس بیٹھ کر جب میں ذکر کرتا رہتا تھا خاموشی سے ،تو ذکر کے دوران حالت ِبیداری میں نبی علیہ الصلٰوة والسلام کی زیارت نصیب ہوئی اورآپ  ۖنے ارشاد فرمایا اَنَا اُعَلِّمُکَ کُلَّ شَےْیٍٔ میں تمہیں سب کچھ سکھلا دوں گا ۔ 
ہندوستان سے افغانستان کے لیے روانگی  : 
	 حضرت جب پاکستان تشریف لائے ہیں یہ ١٩٥٢ء کا واقعہ ہے تو ہندوستان سے حضرت  اس لیے تشریف لائے تھے کہ افغانستان جائوں گا مقصد افغانستان جانا تھا اوروہاں پر حضرت نظام الدین بلخی رحمةاللہ علیہ کا مزار ہے جو ہمارے چشتی سلسلے کے بزرگ ہیں بہت بڑے ،تقریباً تیرہویں یا چودھویں نمبر پر آتے ہیں ۔ان سے حضرت   کو رُوحانی مناسبت تھی رُوحانی تعلق تھا۔ اس رُوحانی مناسبت کی وجہ سے فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں بلخ میں جاکر رہوں ۔اس زمانے میں کھوکھرا پار سندھ کے راستے بارڈر کھلاہو اتھا وہاں سے آنا جانا ہوتا تھا تو تشریف لائے اورپشاور کی ٹرین میں بیٹھ گئے تو صبح کو ٹرین نے لاہور رُکنا تھا اورآگے پشاور جانا تھا ۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 3 1
3 حسبہ بل کی چند شقیں 3 2
4 درس حدیث 8 1
5 کسی کے بارے میں دعوٰی نہیں کیا جاسکتا : 9 4
6 ''حقیر '' و '' غیر حقیر '' کا پتہ مرنے کے بعد چلے گا : 10 4
7 کچھ نا کہنا ،یہ بھی جائز نہیں ہے : 10 4
8 '' قرآن وسنت اور تواتر وتعامل '' 11 1
9 قرآن پاک کی آیت میراث : 16 8
10 (٢) قرآن کریم میں ارشاد ہے : 16 8
11 (٣) حق تعالیٰ کاارشاد ہے : 16 8
12 شخصیت وخدمات حضرت مولانا سید حامد میاں 21 1
13 ایک اہم اصول : 22 12
14 خاتمہ کا اعتبارہوتا ہے : 22 12
15 حضرت نے اپنی تعریف میں نظم رُکوادی : 23 12
16 ایک مجلس کا واقعہ : 23 12
17 حضرت کا باطنی مقام اور حضرت شیخ الاسلام کی شہادت : 24 12
18 سب سے کم عمری میں خلافت عطا ہوئی : 24 12
19 امام الاولیاء حضرت لاہوری کا حضرت کے بارے میں ارشاد 28 12
20 روضۂ رسول ۖسے جواب اور عالم کشف میں بشارت : 29 12
21 ہندوستان سے افغانستان کے لیے روانگی : 29 12
22 غیبی اشارہ اورلاہور میں نزول : 30 12
23 مثالی درس گاہ ..... افراد کی تیاری ..... پُر امن انقلاب : 30 12
24 رائیونڈ روڈ پر درسگاہ اورخانقاہ : 30 12
25 حضرت کا توکل علی اللہ : 31 12
26 حضرت کا اتباع سنت اورتواضع : 32 12
27 بخاری شریف اور انوارات : 33 12
28 مرید ین کی اصلاح وتربیت : 33 12
29 ہر شب شب ِقدر ہے : 34 12
30 اجلاس جمعیت .. ...... گناہ کے کام پر استغفار : 34 12
31 ہدیہ میں احتیاط : 35 12
32 حقوق میں کوتاہی پر مرید کی سرزنش : 35 12
33 واشنگ ویئر اورکے ٹی کا کپڑا ناپسند فرماتے تھے : 36 12
34 طلباء اور سیاست : 36 12
35 ایک مدرس کو تنبیہ : 37 12
36 3سیاسی موقف میں پختگی اورقرآن سے دلیل : 37 12
37 ماہِ رجب کے فضائل واحکام 40 1
38 ماہِ رجب عظمت وفضیلت والا مہینہ : 40 37
39 رجب کی پہلی رات کی فضیلت : 42 37
40 ماہِ رجب میں روزے : 44 37
41 رجب کے روزوں سے متعلق ایک اہم علمی تحقیق : 47 37
42 ٢٢ رجب کے کونڈے : 49 37
43 کونڈوں کی رسم کی شرعی حیثیت : 49 37
44 ٢٧ رجب کے منکرات اوررسمیں : 53 37
45 ٢٧رجب اورشب ِمعراج : 54 37
46 طلاق ایک ناخوشگوار ضرورت اوراُس کا شرعی طریقہ 58 1
47 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فیصلے وفتاوٰی : 58 46
48 گلدستہ احادیث 62 1
Flag Counter