ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
ہے کہ وہ بہت اعلی ترقی کرے گا اس لیے آپ جلد بازی اور اور اضطراب سے کام نہ لیں اوسکے اوقات ضائع نہیں ہو رہے ہیں ۔اگر بالفرض ا س شوال یا اس سال میں کوئی تعلیمی مرتبہ حاصل نہ ہو تو بلاسے۔میں تو موجودہ حالت میںاوس کے لیے تعلیمی مشغلہ چند مہینوں کے لیے مضر سمجھتا ہوں ۔آپ جو کچھ اوس پرخرچ کر رہے ہیں اوس سے مت گھبرائیے ،میرے خیال میں گزشتہ اخراجات سے اِس زمانہ کا خرچ بہت ہی بہتر اور مفید ہے ۔والسلام ننگ ِاسلاف حسین احمد غفرلہ بروز شنبہ ١٩رمضان المبارک ١٣٦٨ھ یہ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کا خط ہے جو انھوں نے دادا جان رحمة اللہ علیہ کے نام لکھا اس میں وہ ان کو اپنے شیخ سے ملا رہے ہیں کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ میرے شیخ یعنی حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے فخر کو پالیں گے تو یہ حضرت کے باطنی مقام کے بارے میں بہت بڑی شہادت ہے۔ اسی طرح حضرت کاجو تعلق تھا، بہت سارے لوگوں سے تھا ۔مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ سے بہت پرانا تعلق تھا حضرت کا ۔اورحضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ بھی اس تعلق کو بہت اچھی طرح نبھاتے تھے اورقدیم سے یہ تعلق چلا آرہا ہے۔ دادا جان رحمة اللہ علیہ سے مولانا مفتی محمودصاحب رحمةاللہ علیہ مراد آباد میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور والد صاحب رحمة اللہ علیہ کا بھی وہ تعلیم کا زمانہ تھا ۔جب حضرت مفتی صاحب دادا جان سے پڑھتے تھے تو کتابوں کی تصحیح وغیرہ کا کچھ کام فارغ وقت میں مفتی صاحب کو دادا جان رحمة اللہ علیہ دے دیا کرتے تھے۔ تو والد صاحب نے بتلایا تھا مجھے کہ دادا جان نے حضرت مفتی صاحب کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ ایک رسالہ ہے فارسی کا''نادر''اُس کا نام ہے کہ یہ تم فارغ وقت میں اِن کو پڑھا دیا کرو ۔تووہ فرماتے تھے کہ وہ مجھے مفتی صاحب نے پڑھایا ۔ میں اِن سے وہ رسالہ پڑھتا تھا۔ اس وقت حضرت مفتی صاحب بھی طالب علم تھے اورحضرت والد صاحب بھی طالب علم تھے اس زمانے کی بات ہے ۔بہت پرا نا تعلق تھا پھر حضرت رحمة اللہ علیہ جب ١٩٥٢ء میں پاکستان تشریف لائے ہیںتو مفتی محمود صاحب ملتان میں اس وقت تدریس کا مشغلہ شروع فرماچکے تھے ان کے علم میں آیا