ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
کہ حضرت پاکستان تشریف لا چکے ہیں تو انھوںنے خط لکھااُس وقت۔ اوروہ خط بھی بہت تاریخی اوربڑاعمدہ ہے۔ آج سے تقریباً ٦٥ یا ٧٠ سال پہلے کا خط ١ ہے ، وہ بھی میں چاہتا ہوں کہ آپ کو سُنادوں ۔اِس میںحضرت مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ حضرت والد صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ حضرت مفتی محمودصاحب کا خط حضرت کے نام : باسمہ تعالی حامداً مصلیًا مسلمًا الاعزالارشد الفاضل الجلیل ذا المجدالاثیل المولوی حامد میاں بورک فی درجاتکم السلام علیکم ورحمةاللہ وبر کاتہ مزاج گرامی خیریت طرفین مسئول عرصہ ہوا ہے کہ احقر کو معلوم ہوا کہ آپ اپنے محبوب وطن ،والد محترم ودیگر اقارب و اکابر کو خیر باد کہہ کر دیار ِپاک سے تشریف لاکر لاہور میں رونق افروز ہیں ۔اس حقیر کا فریضہ تھا کہ اطلاع پاتے ہی آپ کی خبرگیری کرتا اوراپنی حقیر خدمات سے آپ کی دل جوئی کرتا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ مدرسہ اشرفیہ میں خدمت ِتدریس میں مصرو ف ہو چکے ہیں اس لیے کچھ اطمینان بھی ہوا ،اور یہ اطمینان اس کا باعث ہوا کہ سرعت سے عریضہ نہ پیش کر سکا ۔اب اس عریضہ سے احقر کا مقصد وحید یہ ہے کہ اس عاجز سے جس نوع کی خدمت متصور ہو سکتی ہے اُس میں کسی قسم کا دریغ ممکن نہیں ۔آپ یوں تصور کریں کہ یہاں پاکستان میں میرا ایک ایسا خادم بھی موجود ہے جس کی تمام طاقتیں آپ کی مملوکہ ہیں اور جوہر مصیبت غم ودرد (اعاذنا اللہ )میں آپ کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے ۔عاجز کے قلب میں آپ کے لیے جو جگہ ہے اُس کی تعبیر قالب الفاظ میں ڈھل نہیں سکتی اور نہ قلم ایسے نقوش لکھنے پر قادر ہے جو مطابقةًاس پردلالت کرتے ہوں۔حضرت الاستاذ جناب مولانا محمد میاں صاحب دامت برکاتہم کے الطاف و عنایات اس حقیر پر اتنے ہیں جن کا واجبی تقاضا ہے کہ ١ نہیں بلکہ ٥٣ برس پہلے کی بات ہے۔