ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
ورکبھی کبھی ان کے جسم میں بعض اعضاء کو آگ سے جلانے کے بارے میں بتایا گیا۔ کمیٹی : تم لوگ یہ کرنے پر مجبور کیوں ہوئے جبکہ یہ بچے ہیں اورانہیں کچھ معلوم نہیں؟ یورگس : میں اس بات کا اعتراف کرتاہوں لیکن یہ سب کچھ ہم ان کی بہنوں اورمائوںکے سامنے کرتے تھے تاکہ انہیں معلومات فراہم کرنے پر مجبور کیا جاسکے ۔ چونکہ صورتحال کافی پیچیدہ تھی اس لیے اس وقت ہم کچھ بھی کرگزرجانے کوبالکل تیا ر تھے ۔لیکن ابو غریب جیل کی انچارج کا رپنسکی نے احکامات سے تجاوز کیا جس کی وجہ سے درجنوں بچے مرگئے۔ کمیٹی : کیا تم نے مرنے والے بچوں کو ان کے اقرباء کے حوالے کیا؟ یورگس : ہم نے یہ کام نہیں کیا بلکہ ہم نے خود ہی انہیں صحرا میں دفن کردیا ، ہم چاہتے تھے کہ ان کی مائیں اوربہنیں انہیں دفن کرنے میں شریک نہ ہوں مگر انہوں نے اصرار کیا جس کی وجہ سے ہمیں انہیں اپنے ساتھ لے جانا پڑا اوروہ مناظر بہت ہولناک تھے۔ کمیٹی : مسٹررویگ ! آپ سے سوال ہے کہ امریکی فوج نے عراقی نوجوانوں کے خلاف ٹارچر کے لیے انوکھے اوربہت خطرناک طریقے استعمال کیے، اس بارے میں تمہارے پاس کیا تفصیلات موجودہیں ؟ رویگ : پہلے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میں نے اپنے سربراہوں کو لکھ بھیجا تھا کہ میں تشدد کے لیے استعمال ہونے والے بعض طریقوں کے خلاف ہوں اورمیں نے اپنا اعتراض بھی درج کروادیا تھا مگر اب تک میری کسی نے نہیں سنی ۔ کمیٹی : تم نے اپنا اعتراض کس کی طرف بھجوایا تھا؟ رویگ : میں نے بنیادی طورپر یہ اعتراض وزیردفاع رمز فیلڈ کی طرف بھجوایا تھا،اسی طرح میںنے کنڈولیزا رائس کی طرف بھی ایک نوٹ بک بھیجی تھی جس میں میں نے اپنے اعتراض کے اسباب تفصیلی طورپر درج کیے تھے ۔ میںنے رائس سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ اس نوٹ بک کو صدربش کے سامنے بھی پیش کرے۔ کمیٹی : کیاہمیں اپنے اعتراضات کے بارے میں کچھ بتائو گے ؟ رویگ : میرا اعتراض قیدیوں کے ساتھ ہونے والی تمام غیراخلاقی حرکتوں کے خلاف تھا، بالخصوص جب مجھے علم ہوا کہ امریکی فوج میں موجود اکثر جنس پرست افراد کو عراق اس لیے بلا یا گیا ہے تاکہ وہ ان قیدیوں کے