Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005

اكستان

46 - 64
نہ کھا سکیں ۔ بلکہ جب انہوں نے دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے؟ تو یہ جواب دیا کہ اب تو سکون ہے (اور واقعی موت سے بڑھ کر کیا سکون ہو گا ) یہ سن کر انھوں نے کھانا کھایا اوررات کوبیوی کی طرف میلان بھی ہوا ۔بیوی نے بے انتہا صبر کیا کہ اِس سے بھی انکار نہ کیا ۔جب صبح ہوئی توکہا کہ میں تم سے ایک مسئلہ پوچھتی ہوں کہ اگر کسی نے ہم کو کوئی چیز بطورِامانت دی ہو پھربعد میں وہ امانت کو واپس لیناچاہے توکیا کرناچاہیے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی چاہیے کہ جب مالک اُس کو واپس لینا چاہے تو بڑی خوشی کے ساتھ واپس کردیا جائے۔ حضرت اُم سلیم  نے کہا کہ توپھر اپنے بچہ پر صبر کرو اورخوشی کے ساتھ اُس کے دفن کرنے کا انتظام کروکیونکہ خدا نے اپنی امانت لے لی ہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بڑے جھلائے (یعنی غصہ ہوئے)کہ تم نے رات ہی کو کیوں خبر نہ کی ۔ کہا کیا ہوتا، رات کودفن کرنے میں مصیبت ہوتی اوررات بھر پریشان رہتے کھانا بھی نہ کھاتے، اس لیے رات کو خبرنہ کی۔
	رسول اللہ  ۖ کے پاس حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ گئے ۔تو آپ  ۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اُم ِسلیم  کا عمل بہت پسند آیا اورمیں اُمید کرتا ہوں کہ آج رات تم دونوں کو خدا نے مبارک اولاد عطا فرمائی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو بڑے عالم اوربڑے سخی صاحبِ اموال واولاد تھے۔ توحضرت اُمِ سلیم نے سچ فرمایا کہ یہ اولاد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اس کو وہ جب لینا چاہیں خوش ہوکر خدا کے حوالہ کردینا چاہیے۔
	اس پر شاید یہ سوال ہوگا کہ یہ امانت ہے تو پھر اللہ نے اِس کی اتنی محبت کیوں دی ہے۔ اگر محبت نہ ہوتی تواتنا غم بھی نہ ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ (اتنی محبت اس وجہ سے دی ہے )تاکہ پرورش ہو سکے کیونکہ بغیر محبت کے اُس کے پیشاب پاخانہ (کو اُٹھانا اوراُس)کی پرورش کرنا مشکل ہے ۔اسی لیے غیر کی اولاد پالنا بہت دشوار ہے  اورجب بچہ کی پرورش ہو چکتی ہے تو محبت میں بھی کمی ہونے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے بیٹے کے ساتھ ویسی محبت نہیں ہوتی جیسی چھوٹے سے ہوتی ہے۔ 
	غرض اولاد کو بھی خدا کی چیز سمجھو کہ اُس کی امانت چند روز ہمارے پاس ہے پھر اُس کے فوت ہونے پر زیادہ افسوس نہ ہوگاکیونکہ پریشانی کی بنیاد تو یہی ہے کہ تم اِن کو اپنی چیزسمجھتے ہو۔ ( الاجرالنبیل ملحقہ فضائل صبروشکر ص٦٣٩، مطبوعہ ملتان)۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 3 1
3 درس حدیث 10 1
4 سب گمراہ ہیں : 10 3
5 سب محتاج ہیں : 10 3
6 سب گناہگار ہیں : 11 3
7 اگر سب نیک ہو جائیں : 11 3
8 اگر سب بُرے ہو جائیں گے : 12 3
9 عقل محدود ہے : 12 3
10 اللہ تعالیٰ سخی ہیں : 13 3
11 ایک اشکال کا جواب : 14 3
12 قرآن پاک سے تعلق اور اُس کی برکا ت 15 1
13 انسانی اعضاء کی پیوند کاری 25 1
14 عدم جوازکے دلائل : 25 13
15 -i خود کشی حرام ہے : 25 13
16 -iiکسی عضو کا بگاڑ نا بھی حرام ہے : 26 13
17 1۔ زندہ ومردہ کے اعضاء لینے کا جواز : 29 13
18 مذکورہ بالا دلیل کا جواب : 30 13
19 ۔ صرف میت کے اعضاء لینے کا جواز : 35 13
20 دلیل : 35 13
21 زندہ آدمی کے اعضاء لینے کی اجازت نہیں : 36 13
22 اولاد کی اہمیت اوراُس کے فضائل 40 1
23 جو اولاد مرجائے اُس کا مرجانا ہی بہتر تھا : 40 22
24 چھوٹے بچوں کی موت ہوجانے کی حکمتیں : 40 22
25 چھوٹی اولاد کے مرجانے کے فضائل : 42 22
26 ایک بزرگ کی حکایت : 43 22
27 ایک حدیث پاک کا مفہوم : 43 22
28 بڑی اولاد کے مرجانے کی فضیلت : 44 22
29 صبروتسلی کا ایک اورمضمون : 45 22
30 حضرت اُم سلیم کا واقعہ اورصبروتسلی کا مضمون : 45 22
31 گلدستۂ احادیث 47 1
32 چالیس دِن نماز پر دوپروانے 47 31
33 طلاق ایک ناخوشگوار ضرورت اوراُس کا شرعی طریقہ 49 1
34 نافرمان عورتوں کی اصلاح و تربیت کی پہلی تدبیر : 53 33
35 اصلاح وتربیت کی دوسری تدبیر : 53 33
36 اصلاح وتربیت کی تیسری تدبیر 54 33
37 اصلاح وتدبیر کی آخری کوشش : 54 33
38 مجبوری کی صورت میں طلاق کا اقدام اوراُس کا دستورالعمل 55 33
39 دُعائوں کے فضائل وترغیب میں رسول ۖ کے ارشادات 57 1
40 خوشحالی میں دُعا ء کا حکم : 57 39
41 بلائوں کا دفاع دُعاء سے کرو : 57 39
42 دُعاء کا مقابلہ مصائب سے : 57 39
43 ہرچیز کی دُعاء کاحکم : 58 39
44 مؤمن کی دُعا ء پر فرشتوں کا آمین کہنا : 58 39
45 غائبانہ دُعا ء : 58 39
46 دُعاء پر اللہ تعالیٰ کا لبیک کہنا : 59 39
47 اوّلاً اپنے لیے دُعا ء کرنا : 59 39
48 اپنے لیے دعاء کی فضیلت : 59 39
49 درازی عمر کی دُعاء : 60 39
50 جنت الفردوس کی دُعاء : 60 39
51 دُعاء کرنے والے پر جنت کے دروازے کھل گئے : 60 39
52 یاد گارِ اسلاف 61 1
53 دینی مسائل 63 1
54 ( بیمار کی نماز کا بیان ) 63 53
55 مریض کے لیے امامت واقتداء کے چند مسائل : 63 53
Flag Counter