ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
نہ کھا سکیں ۔ بلکہ جب انہوں نے دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے؟ تو یہ جواب دیا کہ اب تو سکون ہے (اور واقعی موت سے بڑھ کر کیا سکون ہو گا ) یہ سن کر انھوں نے کھانا کھایا اوررات کوبیوی کی طرف میلان بھی ہوا ۔بیوی نے بے انتہا صبر کیا کہ اِس سے بھی انکار نہ کیا ۔جب صبح ہوئی توکہا کہ میں تم سے ایک مسئلہ پوچھتی ہوں کہ اگر کسی نے ہم کو کوئی چیز بطورِامانت دی ہو پھربعد میں وہ امانت کو واپس لیناچاہے توکیا کرناچاہیے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی چاہیے کہ جب مالک اُس کو واپس لینا چاہے تو بڑی خوشی کے ساتھ واپس کردیا جائے۔ حضرت اُم سلیم نے کہا کہ توپھر اپنے بچہ پر صبر کرو اورخوشی کے ساتھ اُس کے دفن کرنے کا انتظام کروکیونکہ خدا نے اپنی امانت لے لی ہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بڑے جھلائے (یعنی غصہ ہوئے)کہ تم نے رات ہی کو کیوں خبر نہ کی ۔ کہا کیا ہوتا، رات کودفن کرنے میں مصیبت ہوتی اوررات بھر پریشان رہتے کھانا بھی نہ کھاتے، اس لیے رات کو خبرنہ کی۔ رسول اللہ ۖ کے پاس حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ گئے ۔تو آپ ۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اُم ِسلیم کا عمل بہت پسند آیا اورمیں اُمید کرتا ہوں کہ آج رات تم دونوں کو خدا نے مبارک اولاد عطا فرمائی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو بڑے عالم اوربڑے سخی صاحبِ اموال واولاد تھے۔ توحضرت اُمِ سلیم نے سچ فرمایا کہ یہ اولاد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اس کو وہ جب لینا چاہیں خوش ہوکر خدا کے حوالہ کردینا چاہیے۔ اس پر شاید یہ سوال ہوگا کہ یہ امانت ہے تو پھر اللہ نے اِس کی اتنی محبت کیوں دی ہے۔ اگر محبت نہ ہوتی تواتنا غم بھی نہ ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ (اتنی محبت اس وجہ سے دی ہے )تاکہ پرورش ہو سکے کیونکہ بغیر محبت کے اُس کے پیشاب پاخانہ (کو اُٹھانا اوراُس)کی پرورش کرنا مشکل ہے ۔اسی لیے غیر کی اولاد پالنا بہت دشوار ہے اورجب بچہ کی پرورش ہو چکتی ہے تو محبت میں بھی کمی ہونے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے بیٹے کے ساتھ ویسی محبت نہیں ہوتی جیسی چھوٹے سے ہوتی ہے۔ غرض اولاد کو بھی خدا کی چیز سمجھو کہ اُس کی امانت چند روز ہمارے پاس ہے پھر اُس کے فوت ہونے پر زیادہ افسوس نہ ہوگاکیونکہ پریشانی کی بنیاد تو یہی ہے کہ تم اِن کو اپنی چیزسمجھتے ہو۔ ( الاجرالنبیل ملحقہ فضائل صبروشکر ص٦٣٩، مطبوعہ ملتان)۔