ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
کریدے،دانتوں پر ناخن سے نہ مارے، زمین پر ہاتھ نہ ٹیکے، اس پر لکیر نہ بنائے، انگلی نہ چٹخائے، گھنڈی یا بٹن سے نہ کھیلے، اُس کے سامنے کسی چیز سے ٹیک نہ لگائے، کسی چیز پر ہاتھ ٹیک کے نہ بیٹھے ، ہاتھ پر ٹیک لگائے پیچھے کو جھکا ہوا نہ رہے، اُس کی طرف پیٹھ یا پہلو نہ کرے، زیادہ بات نہ کرے، بے ضرورت کھنکھارے نہیں ، نہ تھوکے ، نہ بلغم نکالے، چھینکے تو منہ چھپا کے بہت آہستہ سے۔ طلبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصیحتیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حقوق ِعالم کے باب میں جو نصیحتیں کی ہیں اُن میں ایک یہ ہے کہ عالم کو کوئی کام پیش آئے تو تم اُس کا کام کرنے کے لیے سب سے آگے بڑھو، اُس کی مجلس میں آہستہ آہستہ بات کرو، خدا کے واسطے اس کی توقیر کرو، اُس سے لغزش ہو جائے تو اُس کی معذرت قبول کرو۔ دوسرے بزرگوں نے فرمایا کہ اُستاد کے پہلو میں نہ بیٹھو ، وہ کہے تب بھی نہ بیٹھو مگر جب جانو کہ نہ بیٹھنے سے اُس کو صدمہ ہوگا تب مضائقہ نہیں ہے۔ (٨) اُس کے ساتھ بڑے ادب سے گفتگو کرے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اس سے لِمَ ؟ (کیوں) نہ کہے، اسی طرح لَا نُسَلِّمُ (ہم نہیں مانتے )یا مَنْ نَقَلَ ھٰذٰا (اس کو کس نے نقل کیا ہے) یا اَیْنَ مَوْضِعُہ (یہ کہاں لکھا ہے) یہ الفاظ نہ بولے۔ بعض سلف نے فرمایا کہ جو اپنے استاد سے لِمَ (یعنی یہ کیوں؟ ) کہے وہ کبھی فلاح نہ پائے گا، اُستاد سے بات کرنے میںاِس کا خیال رکھے کہ اس طرح کے الفاظ نہ آنے پائیں سمجھا؟ ہے نا؟ وغیرہ۔ (٩) جو بات تم کو معلوم ہے اُس کو بھی اُستاد کی زبان سے اس طرح سنو جیسے تمہیں معلوم نہ تھی اور اس کی طلب تھی اوراس پر خوشی کا اظہار کرو بلکہ اگر اس کو شروع کرنے کے بعد تم سے پوچھے کہ تم کو معلوم ہے تو یوں جواب دو کہ میں حضرت کی زبان سے اس کو سننا چاہتا ہوں یا جناب جو بات فرمادیں گے وہ زیادہ صحیح ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ (١٠) اُستاد کو کوئی خط ،درخواست یا استفتاء وغیرہ تہ کیا ہوا نہ دے کہ اس کو کھولنے کی زحمت ہو، اسی طرح کتاب دے تو اُلٹی نہ دے ،کوئی خاص مقام دکھانا ہوتو وہ مقام نکال کردے اور جگہ بتادے۔ اُستاد کوئی چیز دیتا ہو تو اس طرح نہ لے کہ خود اُستاد کو ہاتھ بڑھانا یا کھسکنا پڑے ۔اسی طرح کوئی چیز اس سے لینے کے لیے کھسک کرنہ جائے بلکہ کھڑے ہوکراور اپنے پیر یا ہاتھ وغیرہ سے اُستاد کے کپڑوں کو نہ دبائے ، قلم دے تو روشنائی میں ڈبو کر