ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
وہ جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عدل پر اُتر آئے تو ہماری نجات ممکن نہیں ہے اس لیے گھبراکر کہتے ہیں : ''مالک ! ہمیں آپ کا عدل نہیں آپ کا فضل چاہیے'' ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کوتاہیوں کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ اگر حساب شروع ہوا تو بہر حال پکڑے جائیں گے اس لیے پکار کر کہتے ہیں : '' مالک ! حساب نہ لیجئے، ہم حساب دینے کی ہمت کہاں سے لائیں ہم کو تو اپنے فضل وکرم سے حساب وکتاب کے بغیر معاف کرکے جنت دیدیجیے ''۔ ہرایک حاجی خدا وند ِقدوس کے دربار میں اس یقین کے ساتھ حاضر ہوتا ہے کہ یہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا ہے،اس لیے ہم بھی بخشش کا پروانہ لے کر جائیں گے ،فضل ِالٰہی اور رحمت ِباری کی بارش ہم پر بھی ضرور ہوگی۔ اپنی عاجزی کا احساس ،اپنی کوتاہی کا اعتراف ، اللہ کی رحمت پر اعتماد اور اس کے ساتھ ''کچھ نہ کچھ لے کر ہی جائیں گے ''کا یقین ،پھر کیف ومستی وخود فراموشی اور عشق ومحبت کے جذبات سے سرشار ہونا ، مچل مچل کر مانگنا ، لپٹ لپٹ کررونا، یہی وہ صدائیں اور ادائیں ہیں جو رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اورہر حاجی اپنا دامنِ مراد بھر لیتا ہے اور معصوم ، صاف ستھر ا، دُھلا دُھلایا بڑی دولت لے کر لوٹتاہے۔ (بشکریہ ندائے شاہی،انڈیا) بقیہ : پردہ کا حکم قرآن پاک کھلم کھلا کفر وغیرہ پر حاکم کو معزول کر دینے کا مسئلہ عقائد کی مشہور کتاب شرح مواقف میںص ٧٣٤ پر ہے مطبوعہ نولکشور کہ جیسے اُمت کو امام یعنی حاکم مقرر کرنے کا اختیار ہے ویسے ہی انہیں ایسے اسباب کے پائے جانے پر اسے معزول کرنے کا بھی اختیارہے۔ اور معصیت کا لفظ اطاعت کے مقابلہ میں استعمال ہوتاہے قاموس میں باب الواو والیاء میں ہے اَلْعِصْیَانُ خِلَافُ الطَّاعَةِ ۔قرآن پاک میں چوتھے پارہ رکوع نمبر١٣ کے آخر میں دو آیتیں متصل لائی گئی ہیں وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ اور وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ ۔ مَنْ ےُّطِعِ اللّٰہَ کا ترجمہ علامہ عثمانی اور شیخ الہند اور احمد رضا خان صاحب نے ''حکم پر چلنے'' اور''حکم ماننے ''کا کیا ہے اور وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ کا ترجمہ ' ' نافرمانی'' کا کیا ہے۔