ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
وبرخاست میں رفتاروگفتار میں۔ (٤) اُستاد سے سخت مزاجی یا بد خلقی بھی صادر ہوتو صبر کرے ،اور ا س کی وجہ سے اُس کے پاس آنے جانے میں یا عقیدت میں فرق نہ پڑنے پائے ۔ لازم ہے کہ اس کے فعل کی کوئی عمدہ تاویل کرے اوراس سختی وبدمزاجی کے موقع پر اپنے ہی کو قصوروار قراردے اور معذرت میں سبقت کرے اور اپنی حرکت سے توبہ واستغفار کرنا ظاہر کرے،اسی میں شاگرد کی دنیا وآخرت کانفع ہے۔ امام معانی بن عمران نے فرمایا کہ جو عالم پر خفا ہوتا ہے اُس کی مثال اُس شخص کی ہے جو جامع مسجد کے کھمبوں پر خفاہو۔ ابن عینیہ سے کسی نے کہا کہ یہ طالب علم لوگ اتنی دُور دُور سے آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ اِن پرخفا ہوتے ہیں کہیں وہ آپ کو چھوڑ کر چل نہ دیں۔ابن عینیہ نے کہا وہ تمہارے ہی جیسے احمق ہوں گے اگر میری بدخلقی کی وجہ سے اپنے نفع کی چیز چھوڑدیں۔ امام ابو یوسف نے فرمایاکہ انسان پر عالم کی مدارات واجب ہے یعنی اُس کی تندی وسختی کو اپنی نرمی سے دفع کرنا۔ (٥) اُستاد کوئی اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہ کرے تو اُس کی شکر گزاری ضروری ہے اورجب وہ کوئی نکتہ بتائے توتمہیں اگر پہلے سے وہ معلوم ہے جب بھی یہ ظاہر نہ کرو کہ یہ تو مجھ کو پہلے سے معلوم ہے ۔ (٦) اُستاد کے دروازہ پر ا دب کے ساتھ آہستہ دستک دے۔ پہلے ناخنوں سے دستک دے، نہ کام چلے تو انگلیوں سے، ہاں اگر دُور رہتا ہو تو بقدرِضرورت دستک کی آواز بڑھا سکتا ہے ۔اُستاد کے پاس گیا اوروہاں کچھ لوگ اُس سے بات کررہے ہوں اور اُس کو دیکھ کر خاموش ہوگئے تو یہ جلدی سے اُٹھ کرچلاآئے الایہ کہ اُستادخود مزید ٹھہرنے کے لیے کہے ۔اُستاد سورہا ہے تو اُس کو جگائے نہیں بلکہ انتظار کرے۔ حضرت ابن عباس حضرت زید کے دروازہ پر بیٹھے اُن کا انتظار کرتے رہتے تھے، لوگ کہتے کہ جگادیا جائے تو فرماتے کہ نہیں ،حالانکہ کبھی کبھی دیر تک انتظار کرنے کی وجہ سے دھوپ کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی۔ (٧) اُستاد کے سامنے نہایت ادب سے بیٹھے جس سے تواضع وخضوع اورسکون وخشوع مترشح ہوتا ہو ، اورہمہ تن اُس کی طرف متوجہ ہو، بلاضرورت دائیں بائیں اُوپر نیچے نہ دیکھے ،کوئی شورسن کر مضطرب نہ ہو جائے، اُستاد کے پاس بیٹھا ہواآستین نہ چڑھائے ،ہاتھ پیر سے نہ کھیلے، ڈاڑھی اورمنہ پر ہاتھ نہ رکھے ،ناک نہ