ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
عائشہ نے رسول اللہ ۖ سے دریافت کیا۔جناب نے ارشاد فرمایا : صَدَقَ اَفْلَحُ أِ ئْذَنِیْ لَہ ۔ ( بخاری شریف ص٣٦٠ ج ١) افلح نے ٹھیک کہا ہے انہیں (سامنے آنے کی )اجازت دے دو۔ بخاری ہی میں اس سے اگلے صفحہ پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کے رضاعی چچا کے اُن کے پاس آنے کا واقعہ ہے جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ اگر فلاں میرے رضا عی چچا زندہ ہوتے تو وہ میرے پاس آسکتے تھے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : نَعَمْ اِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ ۔ (بخاری شریف ص٣٦١ ) ہاں رضاعت (بھی ) (اُن لوگوں سے نکاح ) حرام کردیتی ہے جن سے پیدائش کے رشتے حرام ہوتے ہیں ۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا خیبر کے فتح ہونے کے بعد نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام نے انہیں باندی رکھنے کے بجائے آزاد کرکے نکاح کرلیا تھا جسے'' اِعْتَاقْ بِشَرْطِ التَّزَوُّجْ '' کہا جاتاہے۔ بخاری شریف میں آتاہے کہ صحابہ کرام کی گفتگو ہو رہی تھی کہ وہ اُم المؤمنین ہیں یا باندی ہیں۔ تو ان حضرات نے کہاکہ (اس کا پتہ ایسے چل سکتا ہے کہ )اگر رسول اللہ ۖ نے ان کا پردہ کرایا تو وہ اُمہات المومنین میں ہوں گی اور پردہ نہ کر ایا تو وہ آپ کی مملوکہ ہوں گی ۔ جب آپ نے اس مقام سے کوچ فرمایا تو اپنے پیچھے سواری پر سوار کرنے کی جگہ بنائی ۔ وَمَدَّ الْحِجَابَ (بخاری شریف ج٢ ص٦٠٦) اور پردہ کھینچ دیا ۔ بخاری شریف میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ ان کے ایک بھائی کے بارے میں یہ شبہہ ہوا کہ وہ صحیح النسب بھائی نہیں بلکہ ان کے والد زمعہ کی باندی سے کسی کے زمانہ جاہلیت میں زنا کرنے سے ہوا ہے کیونکہ زانی عتبہ ابن ابی وقاص نے اپنے بھائی کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی اس باندی سے جو بچہ ہوگا وہ میرا ہوگا،وہ تم لے لینا۔ اس لیے رسول اللہ ۖ نے حضرت سودہ سے ارشاد فرمایا :