ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
سے میںان کا وظیفہ دوچند کرتا ہوں ،تم اس پر عمل کرو اور اُن کا بقایا ادا کرو۔ (معجم الادباء ١٦/٢٦١) تذکرة السامع کی ایک فصل کا خلاصہ : قاضی القضاة امام بدرالدین بن جماعة نے تعلیم وتعلم کے آداب اور اُستادوشاگرد کے باہمی برتائو کے باب میں ایک نہایت جامع اورنفیس کتاب لکھی ہے ۔اس کے تیسرے باب کی دوسری فصل کا عنوان یہ ہے الفصل الثانی فی آداب مع شیخہ وقدوتہ وما یجب علیہ من عظیم حرمتہ ۔ (دوسری فصل استاذومقتداکے ساتھ ادب،اوراس احترام عظیم کے بیان میں جو شاگردپرواجب ہے) یہاں پر ہم اسی فصل کے مضامین کاخلاصہ پیش کرنا چاہتے ہیں : (١) لازم ہے کہ شاگرد اپنے جملہ اُمور میں اپنے اُستاد کا مطیع ومنقادرہے ، اس کی رائے وتدبیر سے باہر نہ ہو، جس طرح بیمار حکیم حاذق کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی طرح اپنے کو اس کے ہاتھ میں دیدے ،جس بات کا قصد کرے اس میں مشورہ کرے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے احترام میں مبالغہ اور اس کی خدمت کو قرب ِخداوندی کا موجب جانے اور یقین کرے کہ استاد کے سامنے ذلیل ہونا عزت ہے ،اس کے لیے جھکنا فخر ہے اوراس کے لیے تواضع سربلندی۔امام شافعی کو کسی نے ملامت کی کہ علماء کے لیے اس قدر کیوں تواضع کرتے ہیں؟تو فرمایا : اھین لھم نفسی فھم یکرمونھا ولن تکرم النفس التی لا تھینھا یعنی میں اپنے کواُن کے آگے ذلیل کرتا ہوں تووہ میری عزت افزائی کرتے ہیں اور جس نفس کو تو ذلیل نہ کرے اُس کی عزت نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابن عباس نے باوجود اپنی بزرگی ومرتبہ کے (کہ خاندان نبوت میں سے تھے اور رسول خدا ۖکے چچا زاد بھائی ) حضرت زید بن ثابت انصاری کی رکاب اپنے ہاتھ سے تھامی اور فرمایا کہ ہم کو اپنے علماء کے ساتھ ایسا ہی برتائو کرنے کا حکم ملا ہے۔ حضرت امام احمد (باوجود اپنی دینی وعلمی عظمت وامامت کے)جب خلف احمر لغوی کی مجلس میں جاتے تو فرماتے کہ میں آپ کے سامنے ہی بیٹھوں گا (یعنی شاگردوں کی طرح بیٹھوں گا،برابر نہیں بیٹھ سکتا)ہم کو یہی حکم ہے کہ جس سے علم سیکھیں اس کے لیے تواضع کریں۔ (٢) اپنے اُستاذ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھے اوراُس کے کمال کاپختہ اعتقاد رکھے۔ سلف میں بعض