ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
میں سے ایک صاحب یعنی یا ابوبکر یا عباس رضی اللہ عنہما میں سے کوئی صحابی اندر گئے تو جاکر جناب رسول اللہ ۖ کو یہ خبردی کہ ایسے وہ جمع ہیں اور یہ باتیں کررہے تھے بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، تو آقائے نامدار ۖ باہر تشریف لے آئے ، سرِ مبارک یا بوجھل تھا یا درد تھا جو بھی چیز تھی اُس کے لیے آپ نے چادر کا پلّہ جیسے ہوتا ہے ایسی کوئی چیز لپیٹ رکھی تھی منبر پر تشریف فرماہوگئے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بس یہ آپ کا آخری دفعہ منبر پر تشریف فرماہونا تھا اس کے بعد نہیں ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جمعہ کے بعد کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اورپھر یہ ارشاد فرمایا ۔ حضراتِ انصار کے حق میں وصیّت : اُوْصِیْکُمْ بِالْاَنْصَارِ میں تمہیں ہدایت دیتا ہوں وصیت کرتا ہوں کہ انصار کا خیال رکھنا فَاِنَّھُمْ کَرِشِیْ وَعَیْبَتِیْ کیونکہ وہ میرا معدہ ہیں۔ کَرِشْ اور کَرْش بھی، کَرِشِیْ میرا معدہ ہیںاور وَعَیْبَتِیْ میرا تھیلہ ہیں اور عَےْبَتَہْ پپوٹے کو بھی کہتے ہیں جانور کے، میرے لیے وہ ایسے ہیں اور انھوں نے معمولی کام نہیں کیے۔ اتنے کام کیے ہیں اسلام کا پھلنا پھولنا ،اسلام کے لیے پناہ گاہ ہونایہ سب مدینہ شریف میں انصار نے کیا ہے ایک حدیث میں یہ آتاہے کہ جب آپ نے حنین کے موقع پر تقریر کی تو اس میں آپ نے فرمایا کہ دیکھو میں نے جومال تقسیم کیا ہے وہ اُن لوگوں کو دیا ہے کہ جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اور کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ لوگ یہ مال لے جائیں اورتم رسول اللہ ۖ کو لے جائو یعنی میں تمہارے پاس ہوں یہ زیادہ پسند ہے یا تمہیں مال دے دوں یہ زیادہ اچھا لگتا ہے ،تو انھوں نے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپ ہمارے پاس ہوں۔ نبی علیہ السلام کے جملے اور حضراتِ انصار کے جوابی جملے : پھر رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ دیکھو ہو سکتا تھا کہ تم لوگ یہ بات کہتے کہ آپ ہمارے پاس آئے تو آپ کے پاس کچھ نہیں تھا ،آپ آئے تو آپ کے پاس ٹھکانا بھی نہیں تھا ہم نے ٹھکانا دیا ،کوئی مدد گار نہیں تھا ہم نے مدد کی آپ کی، اس طرح کے جملے جناب رسول اللہ ۖ نے فرمائے۔ ہر جملہ کے جواب میں انصار نے بڑا اچھا جواب دیا کہ بَلِ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَمَنُّ بلکہ اللہ اور رسول کا ہی احسان ہے کہ انھوں نے اس جگہ کو پسند فرمالیا، اللہ تو ہر جگہ جہاں ارادہ فرمالے جگہ بنا سکتا ہے، ہم میں جو جگہ بنائی ہے یہ اللہ اور رسول کا ہمارے اُوپر احسان ہے۔اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَمَنُّ ہر جملہ کے جواب میں وہ یہ جملہ عرض کرتے رہے۔ بہت بڑی سعادت مندی ہے