ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
نہیں نویں ذی الحجہ کا ہے اور چاند دیکھنے میں غلطی ہوگئی تھی تو اگر باقاعدہ گواہی سے چاند کے ہونے کا اعلان کیا گیا تھا تو نماز اور قربانی دونوں جائز ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ : دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میںچاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے شاید کوئی رگ نہ کٹے اور اندھیرے میں پتہ نہ چلے اور قربانی درست نہ ہو۔ مسئلہ : اگر کوئی شہر کا رہنے والا اپنی قربانی کا جانور کسی گائوں میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی عید کی نماز سے پہلے بھی درست ہے اگرچہ وہ خود شہرہی میں موجود ہو، ذبح ہو جانے کے بعد اس کو منگوالے اور گوشت کھائے۔ قربانی کے جانور : مسئلہ : بکرا، بکری ، بھیڑ ،دنبہ ،گائے، بیل ، بھینس ، بھینسا، اُونٹ، اُونٹنی اِن جانوروں کی قربانی درست ہے۔ ان کے علاوہ کسی اورجانور کی قربانی درست نہیں۔ مسئلہ : بکری سال بھر سے کم کی درست نہیں، جب پورے سال بھر کی ہوتب قربانی درست ہے۔ اور گائے ،بھینس دوبرس سے کم کی درست نہیں،پورے دو برس کی ہو چکے تب قربانی درست ہے۔اُونٹ پانچ برس سے کم کادرست نہیں ہے۔ تنبیہ : بکری جب پورے ایک سال کی ہوجاتی ہے اورگائے جب پورے دو سال کی ہو جاتی ہے اور اونٹنی جب پورے پانچ سال کی ہو جاتی ہے تواُس کے نچلے جبڑے کے دودھ کے دانتوں میں سے سامنے کے دودانت گر کر دوبڑے دانت نکل آتے ہیں، نر اورمادہ دونوں کا یہی ضابطہ ہے۔ تو دوبڑے دانتوں کی موجودگی جانور کے قربانی کے لائق ہونے کی اہم علامت ہے لیکن اصل یہی ہے کہ جانور اتنی عمر کا ہو۔ اس لیے اگر کسی نے خود بکری پالی ہواور وہ چاند کے اعتبار سے ایک سال کی ہو گئی ہو لیکن اس کے دو دانت ابھی نہ نکلے ہوں تو اس کی قربانی درُست ہے ۔لیکن محض عام بیچنے والوں کے قول پر کہ یہ جانور پوری عمر کا ہے اعتماد نہیں کرلینا چاہیے اور دانتوں کی مذکورہ علامت کو ضروردیکھ لینا چاہیے۔ مسئلہ : دُنبہ یا بھیڑ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ سال بھر کے جانوروں میں رکھیں تو سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو سال بھر سے کم لیکن چھ ماہ سے زائد عمر کے دنبہ اوربھیڑ کی قربانی بھی درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سال بھر کا ہونا چاہیے۔ مسئلہ : جوجانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اُس کی قربانی