ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
قسط : ٢،آخری حُسنِ ادب اوراُس کی اہمیت ( حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمة اللہ علیہ ) بات چیت میں تمیز اورادب کی تعلیم : (١٥) سلطان نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ ہمارے پیر حضر ت فرید گنج شکر رحمہ اللہ کے پاس ''عَوَارِفُ الْمَعَارِفْ'' کا جو نسخہ تھا اُس کا خط باریک تھا اور غلط بھی بہت تھا ۔شیخ جب اُس کو سامنے رکھ کر بیان فرماتے تو جگہ جگہ کچھ غور کرنا اور رُکنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ شیخ کے بھائی نجیب الدین متوکل کے پاس عوارف کا بہت عمدہ وصحیح نسخہ موجود ہے لہٰذا میں نے اس کو شیخ سے کہا ،شیخ کو یہ بات گراں گزری ،چند دفعہ فرمایا کہ جی ہاں اس فقیر کو غلط نسخہ کی تصحیح کی لیاقت نہیں ہے ۔پہلے تو میں نہیں سمجھا لیکن جب میری سمجھ میں آیا کہ میری نسبت یہ فرمارہے ہیں تو میں کھڑا ہوگیااوراپنے سر سے ٹوپی اُتارکر اپنا سرشیخ کے قدموں میں ڈال دیا اور عرض کیا کہ معاذاللہ میری یہ غرض نہیں تھی بلکہ میں نے وہ نسخہ دیکھا تھا یاد آگیا ،آپ سے عرض کیا لیکن میری معذرت کچھ مؤثر نہیں ہوئی ۔شیخ کے بشرہ سے ناخوشی کا اثر بالکل پہلے جیسا ظاہر ہوتاتھا، میں سخت حیرانی وپریشانی کی حالت میں مجلس سے باہر آیا ، اُس دن جو غم مجھ کو تھا وہ کسی کونہ ہو، جی چاہتا تھا کہ کنویں میںگرکے جان دے دُوں، میرے اس اضطراب کی خبر شیخ کے صاحبزادہ مولانا شہاب الدین کو ہوئی ،وہ مجھ سے بہت محبت فرماتے تھے انھوں نے میرا حال بہت اچھے انداز میں شیخ سے بیان کیا اُس وقت شیخ خوش ہوئے اور مجھ کو بُلا کر بڑی شفقت ومہربانی کا اظہار فرمایا اور ارشاد کیا کہ:''یہ سب میں نے تمہاری حالت کے کمال کے لیے کیاتھا کہ پیر مشاطۂ مرید ہے ''۔اس کے بعد شیخ نے اپنی خاص پوشاک سے مجھ کو سرفراز فرمایا ۔ (اخبار الاخیار / ٦٩) (١٦) امام احمد کے پاس حضرت عبداللہ بن مبارک کے مولی (آزاد کردہ غلام )آئے،توامام نے ان کی طرف تکیہ بڑھادیا اور ان کی بڑی عزت کی ،امام کا معمول تھا کہ کوئی قابلِ عزت آدمی آتا تو اپنا تکیہ (یا مسند ) اُس کی طرف بڑھا دیتے تھے ۔ایک بار ابوہمام آپ کے پاس سواری پر آئے تو امام نے رکاب تھام لی (آداب شرعیہ ١/٤٧٠)