ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
دوات سامنے رکھے تو کھول کر ، اُستاد کے سامنے خود مصلیٰ پر نہ بیٹھے ،اُستاد مجلس سے کھڑا ہوتو فوراً اُس کا جوتا پیش کرے یا سیدھا کرے، یا کسی اعانت کا محتاج ہوتو اُس اعانت کے لیے شاگردوں کو مبادرت کرنی چاہیے۔ (١١) اُستاد کے ساتھ رات کو آگے اوردن کو پیچھے چلے، مگر جب کہ اس کے خلاف میں کوئی دوسری مصلحت ہو تو خلاف میں مضائقہ نہیں۔ نامعلوم مقامات میںجیسے کیچڑ کی جگہ ، ناپدان ، نالی وغیرہ کے پاس خود آگے بڑھ جائے۔ آگے چلے تو ہر تھوڑی دیر کے بعد مڑ کر اُستاد کو دیکھ لے، اُستاد کی رائے غلط بھی ہوتو یہ نہ کہے کہ غلط ہے یا یہ رائے ٹھیک نہیں ہے بلکہ اِس طرح کہے کہ مجھ کویوں کرنے میں مصلحت معلوم ہوتی ہے ۔ (تذکرة السامع والمتکلم از ٨٧ تا ١١٢) الآداب الشرعیہ ٢/١٧٩ میں ابن الجوزی کے حوالہ سے چند آداب مذکور ہیں۔از انجملہ یہ کہ جب محدث کوئی ایسی حدیث بیان کرے جس کو سامع طالب علم پہلے سے جانتا ہے تو اُس کو اس میںمداخلت نہ کرنی چاہیے ۔ حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی بعض نوجوان مجھ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں اور میں اُس کو اِس طرح سنتاہوں جیسے وہ میرے کان میں نہیں پڑی ہے حالانکہ میںاس کو اس نوجوان کی پیدائش سے پہلے سن چکاہوں۔ ابن وہب بھی اپنی عادت یہی بیان کرتے تھے۔ حضرت عطائ کی مجلس میں ایک شخص نے ایک حدیث بیان کرنی شروع کی، ایک دوسرا شخص بیچ میں دخل دینے لگا توانھوں نے فرمایا مَا ھٰذِہِ الْاَخْلَاقْ مَا ھٰذِہِ الْاَخْلَاقْ میں تو بعض آدمیوں کی زبانی ایک حدیث سنتاہوں اور اس کوبیان کرنے والے سے زیادہ جانتا ہوں پھر بھی اس طرح سنتا ہوں جیسے مجھے کچھ نہیں معلوم۔(صفة الصفوة ٢/١٢١) خالد بن صفوان نے کہا جب تمہارے سامنے کوئی آدمی تمہاری سنی ہوئی حدیث یا جانی ہوئی خبر بیان کرے تو یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں اِس کوجانتا ہوں اس میں شرکت نہ کرومثلاً بیچ بیچ میں بول نہ پڑو کہ ایساکرناخفیف حرکت اور بے ادبی ہے ۔ ازانجملہ یہ ہے کہ جب طالب علم کو کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو صبر کرے تا آنکہ اُستاد کی بات ختم ہو ،اُس کے بعد ادب اور نرمی سے پوچھے، درمیان میں اُن کی بات نہ کاٹے ۔ایک حکیم نے اپنے لڑکے کو نصیحت کی حُسنِ کلام کی طرح حُسنِ استماع بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور حسنِ استماع یہ ہے کہ متکلم کو اپنی بات پوری کرنے کی مہلت دو،اور اپنا منہ اور نگاہ اُس کی طرف متوجہ رکھو اور کوئی بات تمھیں معلوم بھی ہو تو دخل مت دو خاموشی سے سنو۔