ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
قسط : ١ دینی اُمور پر اُجرت ( حافظ مجیب الرحمن اکبری ،ڈیرہ اسمٰعیل خاں ) منور صاحب نے یہ عنوان قائم کرکے عموماً ہر دینی کام پر اُجرت لینا اور خصوصاً علماء وقراء وغیرہم کا امامت، تدریس وغیرہ پر اُجرت لینا حرام ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ،وہ لکھتے ہیں : ''کسی بھی دینی خدمت پر معاوضہ وصول کرنا از رُوئے قرآن وحدیث جائز نہیں اس لیے دین کو پیشہ بنانے والوں کو اس حرام کمائی سے تو بہ کرنی چاہیے'' (اسلام یا مسلک پرستی ص ١٧١ ) توبہ کرنے سے تو کسی مسلمان کو کسی طرح انکار نہ کرنا چاہیے نہ ہی مناسب ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا واقعی قرآن مجید واحادیث ہر دینی خدمت پر تنخواہ لینے کو حرام قرار دیتے ہیں؟ منور صاحب کے دلائل کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا قرآن واحادیث سے اس عمومی فتوٰی کہ ''ہر دینی خدمت پر معاوضہ حرام ہے'' پر روشنی ڈالنا ضروری ہے : (1) قرآن مجید میں ہے : ''اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا۔۔۔۔۔۔ الآےة'' ''صدقات حق ہے فقراء اور مساکین کا اور زکٰوة وصول کرنے والے عاملین کا '' اس آیت ِمبارکہ میں زکٰوة وصدقات وصول کرنیوالوں کو جو ایک دینی خدمت کرتے ہیںصدقات کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ منور صاحب بتائیں کیا یہ حضرات مزدوری نہیں کرسکتے ؟ انھیں محنت مزدوری کرنے کی طاقت نہیں ہوتی؟ آخر وہ ایک دینی خدمت ہی تو کرتے ہیں پھر ان کو اگرچہ حاجت نہ بھی ہو صدقات کا مستحق قراردیا گیا ۔فرمائیے صدقات میں ان کا حصہ کیوں ٹھہرایا گیا ؟ ظاہر ہے کہ یہ صدقات بطورِ وظیفہ ان کو بیت المال سے دیے جائیں گے تاکہ وہ اہل وعیال کے خرچ سے بے فکر ہو کر اِس دینی خدمت کو بجالاسکیں یہاں تک کہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں : ''عامل اگرچہ غنی بھی ہوتو اسکے لیے یہ صدقات حلال ہوں گے لانہ فرغ نفسہ لہٰذا العملکیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس کام کیلیے فارغ کردیا''۔ (رُوح المعانی ص١٢١ ج ١٠ )