ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
کی خوشخبری کا شروع'' ساتھ ہی نیچے حاشیہ دے کر لکھا ہے کہ یونانی نسخہ میں خدا کے بیٹے کا لفظ نہیں ۔ غور فرمائیے جب اصل یونانی نسخہ میں یہ لفظ نہیں ہے تو پھر تراجم میں کہاں سے آگیا۔ اصطلاح'' ابن ِخدا ''کی حقیقت : انجیل یوحنا میں ہے جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں وہ نہ خون سے،نہ جسم کی خواہش سے ،نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا کے ..... سے پیدا ہوئے (باب اول آیت :١٢ ) یعنی ہر وہ انسان جو خدا پر ایمان لائے وہ ''خدا کا بیٹا'' ہے۔ دوسری جگہ لکھا ہے : '' مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔'' ( انجیل متی ٥: ٩) حاصل یہ کہ خدا پر ایمان لاکر اُس کی مرضی پر چلنے والے خدا کے بیٹے یعنی محبوب الٰہی ہیں گویا بیٹا کا لفظ محبوب اور پیارے کے معنی میں ہے ۔ اس لحاظ سے تو حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں کہ ان کو خدا کابیٹا کہا جائے بلکہ ہر مومن صالح خدا کا بیٹا کہلا یا جا سکتاہے۔ ایک اور جگہ لکھا ہے : '' اس لیے کہ پاک کرنے والا اور پاک ہونے والے سب ایک ہی اصل سے ہیں اسی باعث وہ انہیں بھائی کہنے سے نہیں شرماتا ۔''(عبرانیون ٢:١١) یعنی سب آدم کی اولاد ہیں ان میں سے کوئی بھی ''خدا کا بیٹا'' نہیں، اب اگر عیسائی حضرات اپنی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل پیراہیں تو پھر سارے مومنوں کو خدا کا بیٹا کہیں کیونکہ مذکورہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے ورنہ پھر صرف سیّدنا مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہہ کر خدا کی مخلوق کو کیوں دھوکہ دیتے ہیں۔ کون کون خدا کا بیٹا ؟ : آئیے اب ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ بائبل میں کتنے لوگوں کے لیے ''خدا کا بیٹا'' کالفظ استعمال ہوا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ یہ لفظ صرف سیّدنا مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اور بھی کئی ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے کہ جن کو خود عیسائی حضرات بھی خدا کا بیٹا ماننے کے لیے تیار نہیں۔