ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
قرآن پاک میں اصول ذکر کیے جاتے ہیں تفصیل حدیث اور اجماع علماء اُمت سے معلوم ہوتی ہے جیسے قرآن پاک میں ہے : اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ نماز صحیح طرح ادا کرو اور اٰتُوالزَّکٰوةَ زکوة دو لیکن تفصیل سنت اور اجماع اُمت سے معلوم ہوئی کہ کس نماز کی کتنی رکعات ہوں گی اور کیا کیا اوقات ہوں گے، اسی طرح پردہ کے مسئلہ میں عمل اور حدیثیں دیکھنی ہوں گی۔ اجماع کی قوت : اجماع اُمت سب سے قوی چیز ہے۔ اجماع ہی سے قرآن کا قرآن ہونا معلوم ہوا ہے اوراگر کوئی ایک آیت کا بھی انکار کردے تووہ اسلام سے خارج ہو جائیگا۔ ترمذی شریف جلد دوم ص١٢٠ (مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ۔ کراچی ) کی صحیح حدیث میں ہے کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد آنجناب نے نابینا صحابی ابن ِاُمِ مکتوم کے آنے پر حضرت اُمّ سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو پردہ کا حکم فرمایاانہوں نے عرض کیا کہ وہ نابینا ہیں ،نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ۔ ارشاد فرمایا : اَفَعَمْیَاوَانِ اَنْتُمَا اَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہ کیا تم بھی نابینا ہو، کیا تم انہیں نہیں دیکھو گی ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان والی حدیث میں بخاری شریف میں ہے کہ ہودج کسنے والے خادم آئے انہوں نے ہودج اُونٹ پر رکھ کر کس دیا اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ میں اس میں (اندر بیٹھی ) ہوں۔( بخاری شریف ج١ ص٣٦٣)۔ آگے چل کر اسی حدیث میں حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے مجھے اس وجہ سے پہچان لیا کہ : کَانَ یَرَانِیْ قَبْلَ الْحِجَابِ (بخاری شریف ص٣٦٤ ج ١) وہ مجھے پردہ کے حکم سے پہلے دیکھا کرتے تھے۔ عورت صرف اُن ہی رشتہ داروں کے سامنے آسکتی ہے جن سے شریعت نے اجازت دی ہے مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضرت افلح نے آناچاہا تو وہ فرماتی ہیں کہ میں نے انہیں اجازت نہیں دی۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے پردہ کرتی ہو اور میں تمہارا (رضاعی) چچا ہوں۔ اس کے بعد حدیث میں ہے کہ حضرت