ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
عقیدۂ ا بنیت اور بائبل : آج کل جو انجیل عیسائی حضرات کے پاس موجود ہے اگر بغور اس کا مطالعہ کیا جائے تو وہ خود یہ بتاتی ہے کہ اس عقیدہ کی حضرت سیّدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ یہ ان پر صریح بہتان ہے، چنانچہ تمام مروجہ انجیلوں میں تقریباً سو مرتبہ سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے لفظ'' ابن آدم'' موجود ہے جو انہیں کی زبان سے بولاہوا ہے لہذااگر سیّدنامسیح علیہ السلام واقعی ابن ِخدا ہوتے تو کبھی اپنے لیے لفظ ابن ِآدم کا استعمال نہ فرماتے ۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا ذاتی اقرار : ''جب سیّدنا مسیح علیہ السلام یہودی عدالت میں پیش ہوئے تو سردار کاہن نے ان سے کہا کہ میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔یسوع نے اس سے کہا کہ تو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادرمطلق کے داہنی طرف بیٹھے آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے'' (انجیل متی باب ٢٦آیت ٦٣و ٦٤ )۔ غور فرمائیے اس جگہ سیّدنا مسیح علیہ السلام نے کاہن کی بات کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے کے جواب میں ہاں نہیں کی بلکہ اپنے کو ابن آدم ہی کے عنوان سے ظاہر کیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ عقیدہ بعد کا گھڑا ہوا ہے، سیّدنامسیح کی یہ تعلیم نہیں ہے۔ بالفرض اگر سیّدنا مسیح علیہ السلام خدا کے بیٹے ہوتے تو کاہن کے سوال کی ضرور تصدیق فرماتے لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا جس سے اصل حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ''ابن ِخدا'' کا لفظ اور یونانی متن : دیکھئے سیّدنا عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام پر خدائے وحدہ لاشریک لہ کی جانب سے جو انجیل نازل ہوئی تھی وہ یونانی زبان میں تھی اور یہ بات واضح ہے کہ آج دنیا میں نہ کوئی یونانی بولنے والا موجود ہے اور نہ ہی یونانی جاننے والا،یہ بات بھی یاد رہے کہ آج عیسائی دنیا کے پاس اصل یونانی انجیل کا کوئی نسخہ موجود نہیں بلکہ اُردو، انگلش عربی وغیرہ میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں اور وہی اِن حضرات کے پاس موجود ہیں تو اعتبار اصل یونانی نسخہ کا ہوگا نہ کہ موجودہ تراجم کا ،چنانچہ انجیل مرقس (مطبوعہ ١٩٠٨ء و ١٩٢٦ئ) کے شروع میں لکھا ہے کہ'' خدا کے بیٹے یسوع