ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
قربانی کے جانور : بکر ا، دُنبہ ، بھیڑ، ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے۔ گائے ، بیل ، بھینس اوراُونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو ،کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو ۔ مسئلہ : بکرا اوربکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے ۔بھیڑ اوردنبہ اگر اتنا فربہ اورتیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتو وہ بھی جائز ہے ۔ گائے ، بیل اور بھینس دوسال کی ہو۔ اُونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔ ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لیے کافی نہیں۔ مسئلہ : اگر جانور کا فروخت کرنے والا پوری عمر بتاتا ہے اور ظاہری حالات سے اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ ٢ مسئلہ : جس جانور کے سینگ پیدائشی طورپر نہ ہوں یا بیچ میں سے ٹوٹ گیا ہو اُس کی قربانی درست ہے۔ ہاں سینگ جڑ سے اُکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اُس کی قربانی درست نہیں ۔ (شامی) مسئلہ : خصی (بدھیا) بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے ۔(شامی) مسئلہ : اندھے ، کانے ، لنگڑے جانور کی قربانی درست نہیں ۔ اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں پر نہ جا سکے اُس کی قربانی بھی جائز نہیں ۔ مسئلہ : جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یا دُم کٹی ہوئی ہواُ س کی قربانی جائز نہیں ۔ (شامی) مسئلہ : جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اُس کی قربانی جائز نہیں ۔ (شامی، درمختار) مسئلہ : اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طورپر بالکل نہ ہوںاُس کی قربانی درست نہیں ۔ مسئلہ : اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا تو اگر خریدنے والاغنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اُس کے لیے اسی عیب دارجانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحب نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے۔ (درمختار) قربانی کا مسنون طریقہ : اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔ اگرخود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح ٢ یہ جب ہے جب فروخت کرنے والے نے جانور خود پالاہو۔