ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
(١٧) ایک بار حضرت وکیع ، امام سفیان ثوری کے لیے تعظیماً کھڑے ہوئے توانھوںنے اعتراض کیا، حضرت وکیع نے فرمایا کہ آپ ہی نے یہ حدیث نبوی مجھے سنائی ہے ''ان من اجلال اللّٰہ اجلال ذی الشیبة المسلم'' امام سفیان خاموش ہو گئے اور وکیع کا ہاتھ پکڑ کر اُن کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا ۔( الاداب الشرعیہ١/٤٦٨) (١٨) محدث کبیر امام ابوزرعہ نہ کسی کے لیے کھڑے ہوتے نہ کسی کو اپنے مسند پر بٹھاتے تھے مگر محدث ابن وارہ کے لیے یہ دونوں کام کرتے تھے ۔ (الاداب الشرعیہ١/٤٦٨) (١٩) سلیمان بن عبدالملک امیرا لمؤمنین جب حج کو گئے تو اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر عطاء ابن ابی رباح کی خدمت میں مسائل پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے۔ حضرت عطاء اُس وقت نماز پڑھ رہے تھے ، سلیمان بیٹھے انتظار کرتے رہے ،جب عطاء فارغ ہوئے تو انھوں نے سلیمان کی طرف رُخ بھی نہیں کیا۔ سلیمان اسی طرح مناسک ِحج پوچھتے رہے جب پوچھ چکے تو اپنے بیٹوں سے کہا اُٹھو چلو، پھر کہا بیٹو! علم حاصل کرنے میں سستی نہ کرو، میں اس حبشی غلام کے سا منے اپنے ذلیل ہونے کو نہیں بھول سکتا۔ (صفوة الصفوة ٢/١١٩) (٢٠) سعیدبن مسلم کہتے ہیں کہ جلالت وعظمت میں علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ ابن داب انساب و اخبار کے حافظ تھے اور خلیفہ ہادی کے ندیم، مگر اس کے ساتھ یا اس کے سامنے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ سبب پوچھا گیا تو کہا کہ میں ایسی جگہ کھانا نہیں کھاتا جہاں ہاتھ نہ دھوسکوں۔ خلفاء وملوک کے سامنے ہاتھ دھونا دربار کے آداب کے خلاف تھا۔ہادی کو معلوم ہوا تو اُس نے ان کو اپنے سامنے ہاتھ دھونے کی اجازت دی ،چنانچہ اور سب لوگ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد باہر جا کر ہاتھ دھوتے تھے اور ابن داب ہادی کے سامنے ہاتھ دھویا کرتے تھے۔(معجم الادباء ١٦/١٥٥) (٢١) حاکم خراسان عبداللہ بن طاہر کے صاحبزادے طاہر اپنے باپ کی زندگی میں حج کو آئے تو اسحاق بن ابراہیم نے اپنے گھر پر علمائے مکہ کو مدعو کیا تاکہ طاہر اِن سے مل لے اور اِن سے کچھ پڑھے ۔ اس دعوت کو اور سب لوگوں نے تو قبول کیا اور ہر قسم کے اہلِ علم شریک مجلس ہوئے مگر ابوعبید رحمة اللہ علیہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ''العلم یقصد'' یعنی علم کے پاس خود آناچاہیے ۔اسحاق اس جواب پرخفاہوگیااور عبداللہ بن طاہر کی طرف سے ابوعبید کو دوہزار درہم ماہانہ وظیفہ ملتا تھا اُس کو بند کردیا ،اور ابو عبید کے جواب کی اطلاع ابن طاہرکے پاس بھیج دی۔ ابن طاہر کو جب یہ اطلاع پہنچی تو اس نے اسحاق کولکھ بھیجا کہ ابوعبید نے بالکل سچی بات کہی ہے اور آج