ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
حضرات یہ دعا کرتے تھے کہ خدا وندا !میرے اُستاذ کا عیب مجھ پر ظاہر نہ ہو کہ اس سے بے اعتقادی پیدا ہو کر میرے پاس سے اس کے علم کی برکت جاتی رہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں امام مالک کے سامنے ورق بھی بہت آہستہ اُلٹتا تھا کہ اس کی آواز اُن کو سنائی نہ دے۔ امام ربیع فرماتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی پینے کی جرأت نہ ہوئی۔ خلیفہ مہدی کا کوئی لڑکا قاضی شریک کے پاس آیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔پھر اُس نے ایک حدیث پوچھی ، شریک نے کچھ توجہ نہیں کی ، اُس نے پھر پوچھا، انھوںنے پھر توجہ نہیں کی ، تب اُس نے کہا آپ خلفاء کی اولاد (شہزادوں ) کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔شریک نے فرمایا کہ ہاں مگر علم اللہ کے نزدیک اِس سے کہیں برتر ہے کہ میں اس کو برباد کروں۔ اپنے استاذکو دور سے نہ پکارے، اور یا سیدی، یا اُستاذی اور ایھا العالم ، ایھا الحافظ کہہ کے پکارے ،عربی میں جمع کا صیغہ ماتقولون اور مارأیکم اختیار کرے ۔اس کی غیبوبت میں بھی تعظیمی القاب کے ساتھ اُس کا ذکر کرے، تنہا نام نہ لے۔ (٣) اُس کا حق پہچانے اور کبھی اس کا احسان نہ بھولے ،امام شعبہ کا ارشاد ہے کہ میں ایک حدیث بھی کسی سے سن لیتا ہوں تو اُس کی زندگی بھر کے لیے اُس کا غلام بن جاتاہوں ۔ تعظیم اُستاد میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اُس کی غیبت کرے تو تم تردید کرو، اوراستاد کی حمایت کرو اور اگر یہ نہ کرسکو تو اس مجلس سے اُٹھ جائو وینبغی ان ید عولہ مدة حیاتہ ویرعی ذریتہ واقاربہ واولادہ بعد وفاتہ ویتعمد زیارة قبرہ والاستغفار لہ والصدقة عنہ ویسلک فی السمت والھدی مسلکھم ویراعی فی العلم والدین عادتہ ویقتدی بحرکاتہ وسکناتہ فی عاداتہ وعباداتہ یعنی شاگرد کو چاہیے کہ استاد کی زندگی بھر استاد کے لیے دعا کرے اورمرنے کے بعد اُس کی اولاد اوررشتہ داروں اور اُس کے دوستوں کا لحاظ کرے اور بالقصد اُس کی قبر کی زیارت، اُس کے لیے استغفاراور اُس کی طرف سے صدقہ کرے اوراس کے چال ڈھال کی پیروی کرے،علم ودین میں اُس کی عادات کا لحاظ ،اور خواہ عبادت ہو یا عادت ہرایک میںاس کے حرکات وسکنات کی اقتداکرے۔ جس طرح سے امام ابودائود امام احمد کے ، اور وہ وکیع کے ، اور وہ سفیان کے اوروہ منصور کے ، اور وہ ابراہیم نخعی کے اور وہ علقمہ کے ،اور وہ حضرت ابن مسعود کے،اوروہ رسول ِخدا ۖ کے مشابہ تھے، نشست