ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2004 |
اكستان |
|
پس اللہ نے ان لوگوں پر جو قرآن کی تعلیمات سے حجت پکڑتے اور اُس پر ایمان رکھتے ہیں یہ فرض کردیا کہ اپنے پیارے اہل وعیال اور اوطان کو چھوڑ کر کچھ مدت کے لیے اس مبارک اور عظیم گھر کی طرف نکلیں اس لیے کہ یہی گھر وہ پہلا گھر ہے جس کو اللہ نے اس روئے زمین پر اپنی عبادت کے مراسم ادا کرنے کے لیے اور رُوحانی اغراض کے حصول کے لیے قائم فرمایا ہے پھر جب حج کے مراسم ادا کیے جاتے ہیں تو قدم قدم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد تازہ ہوتی رہتی ہے اور یہاں پہنچ کر ان معزز بندگانِ خدا کی زندگی کے کارنامے اوراُن کا جہاد فی سبیل اللہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے اور یہی چیز دین کی روح ہے۔ حج کی فرضیت پر حضرت محمد رسول اللہ ۖ کے ارشادات بہت سے ہیں مثلاً آپ نے فرمایا : یا ایھا الناس ان اللّٰہ قد فرض علیکم الحج فحجوا۔ لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے اس لیے ضرور حج کرو۔ اوردوسری جگہ فرمایا کہ جو استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اُسے اختیار ہے کہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ بلامبالغہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فریضہ حج اجتماعی لحاظ سے اسلام کا اہم ترین رکن ہے کیونکہ اس میں مالی بدنی ،قولی اور اعتقادی تمام عبادات جمع ہو گئی ہیںگویا کوئی نوع عبادت کی اس میں نہیں چھوٹی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : و اذن فی النّاس بالحج یأتوک رجالا و علٰی کل ضامرٍ یأتین من کل فجٍ عمیق ، لیشہدوا منافع لھم ویذکروااسم اللّٰہ فی ایّامٍ معلوماتٍ علٰی ما رزقھم من بھیمة الانعام فکلوا منھا واطعمواالبائس الفقیر۔ اے ابراہیم ! لوگوںمیں حج کا اعلان کردو ، آویں گے لوگ پیادے اور دُبلے اونٹوں پرہر دُور ودراز راستہ سے ، تاکہ فائدے حاصل کریں اورچند معلوم دنوںمیں اللہ کا نام یاد کریں کہ اس نے چوپائیوں کو اُن کے لیے میسر کردیا پس کھائو ان کے گوشت میںسے اور بھوکے محتاجوں کو بھی کھلائو۔ اس آیت میں غور کیجئے کہ بدنی عبادت بھی ہے کہ چل کر آنا جانا پڑتا ہے ، قولی عبادت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور مالی عبادت بھی ہے کہ اللہ کے نام کا جانور پیش کیا جاتا ہے ۔جب یہ فریضہ اتنی خصوصیات کا جامع ہے تو اس کی جزاء بھی اس خصوصیت سے ملنی چاہیے چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا :