ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2004 |
اكستان |
|
کہ اس وقت آپ عملی جہاد نہیں کرسکتے رُکاوٹیں اتنی ہیں اور وہ اس لیے ہوگئیں کہ خود ہمارے مسلمان کفر کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ہمارے حکمران مسلم حکومتیں کفرکے ساتھ مل گئی ہیں اس لیے راہ میں رُکاوٹیں آگئی ہیں اس لیے جہاد وہ اس پیمانے پر نہیں ہو سکتا جس کی ضرورت ہے لیکن وہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ ان مدارس کی بنیاد ختم کرنی چاہیے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جو بندے ہیں ایسے جو اپنی جان اور مال ہر چیز کو قربان کردیتے ہیں صرف حضرت محمد ۖ کے نام پر یہ دیوانے ان مدرسوں سے پیدا ہوتے ہیں،ان کی وجہ سے یہ پیدا ہو رہے ہیں یہ خود بھی قربان ہوجاتے ہیں اور اپنے ساتھ آٹھ دس لوگوں کوبھی قربانی پر آمادہ کرلیتے ہیں، تو اس وجہ سے آپ لوگ ان کی نظروں میں مبغوض ہیں ۔ آپ کو بہت سمجھداری سے اس وقت کام کرنا ہے اگر جہاد کا تلوار والا راستہ رُک گیا ہے وقتی طورپر تو دین کے کام کے اور بہت سے میدان ہیں وہ اختیار کریں اپنے کو عوام سے مت توڑیں۔ یہ خیال رکھیں کہ عوام الناس چونکہ ہیں تو مسلمان سب ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور سب ہمارے ساتھ اس عزم اور نیکی میں شریک ہیں ناواقف ہیں معلومات نہیں ہیں اندازہ نہیں ہے اہمیت کا احسا س نہیں ہے اس لیے عمل پر آمادہ نہیں ہوتے وہ دیگر بات ہے، مگر ہیں وہ مسلمان اور ان کا ایمان خطرہ میں ہے اس وقت ضرورت یہ ہے کہ اُن کا ایمان بچایا جائے کیونکہ ایمان ہوگا تو جہاد ہوگا ایمان ہوگا تو دین کی تعلیم ہوگی ایمان ہوگا تو مدارس کا وجود ہوگا ایمان ہوگا تو تبلیغ ہوگی ، دعوت و تبلیغ ایمان ہوگا تو ہوگی ،اگر ایمان ہی نہ رہا خدانخواستہ تو پھر یہ ساری بات کیسے ہوگی۔ اس وقت مختلف انداز میں وہ پھیلے ہوئے ہیں ہمارے ملک میں ان کی مشنریاں پھیلی ہوئی ہیں رفاہی تنظیموں کے نام پر گائوں اور دیہاتوں میںانہوں نے کام شروع کررکھا ہے گلگت میں اور چترال میں اوران علاقوں میںآغاخانی بہت ہیں بہت مال والے ہیں وہ مختلف انداز سے وہاں کے مسلمانوں کو مراعات دے رہے ہیں ان کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور طرح طرح سے بہکا بہکا کر اُن کوکافر بناتے ہیں ۔سندھ میں ایسا ہو رہا ہے پنجاب کے پسماندہ دیہاتوں میں ایسا ہورہاہے بلوچستان میں ہو رہا ہے سرحد میں ہو رہاہے پورے افغانستان میں ہو رہا ہے یہ کام، اب اگر جہاد کا دوازہ ہم پر بند کردیا گیا اور ہمارے مسلمان ہی اس میں رُکاوٹ بن گئے ہیں تو اور میدان موجود ہے وہ یہ کہ لوگوں کے ایمان کی حفاظت کی بہت ضرورت ہے آپ اس میدان میں آئیں آپ لوگوں سے ملیں اپنی تعلیم بھی جاری رکھیںاور اپنے حلقہ میں اپنے جاننے والوں کو اس کام پر آمادہ کریں کہ وہ رفاہی ادارے قائم کریں ایسے جس سے غریب لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوں تاکہ لوگوں کا رُخ کفر کی طرف نہ ہوآپ کی طرف ہو اپنی طرف اُن کا رُخ رکھیں۔ اگر اُن کا رُخ آپ کی طرف رہا اس کا مطلب ہے کہ حق کی طرف اُن کا رُخ ابھی تک موجود ہے عمل میں چاہے کتنے ہی گرے ہوئے ہیں کتنے ہی گئے گزرے ہیں لیکن رُخ تو ہے ایمان تو موجود ہے اُن کا ، کسی وقت بھی وہ آگے بڑھ سکتا ہے ترقی کرسکتاہے اور خدانخواستہ