ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
انّھا غیر متکلّفةٍ کقولہ علیہ السلام ۔ اللّٰھمّ ذا الحبل الشدید والامرالرشید اسئَلک الامن من یوم الوعید ۔ والجنّة یوم الخلود۔ مع المقرّبین الشّہود۔ والرّکع السّجود۔ والمؤفون بالعھود۔ انک رحیم ودود وانت تفعل ما ترید''۔ (رواہ الترمذی) ''اے اللہ مضبوط رسی والے اور درست حکم والے پروردگار! وعید کے دن، امن کا طالب ہوں اور خلود کے دن جنت کا اور تیرے اُن مقربین کی رفاقت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہوں جنہوں نے تیری گواہی دی، تیرے لیے رکوع وسجود کو شعار ٹھہرایا اور اپنے عہد کو پورا کیا ۔ پروردگار ! تو رحیم اور شفقت والا ہے اور تو جو چاہے کر سکتا ہے''۔ (٢) وکقولہ علیہ السلام ۔اللّٰھمّ انّی اعوذبک من علمٍ لا ینفع وعملٍ لا یرفع وقلبٍ لا یخشع ودعائٍ لا یسمع ۔ (رواہ احمد وابن حبّان والحاکم) ''اے اللہ میں آپ کے ساتھ ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نافع نہ ہو اور ایسے عمل سے تیری طرف جو اُٹھایا نہ جائے اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور اُس دعاء سے جو مقبول نہ ہو''۔ (٣) وکقولہ علیہ السلام ۔ اللّھم استرعوراتنا واٰمن روعا تنا (رواہ احمد) ''اے اللہ میرے عیوب کو ڈھانک دے اور میرے خوف کو امن میں تبدیل کردے''۔ خلاصہ : دعاء میں قافیہ بندی آورد اور تکلف کے طورپر منع ہے اور بے تکلف اور آمد کے طورپر جائز ہے۔ حضرت حبیب عجمی جو بہت مستجاب الدعوات تھے اور نہایت سادہ الفاظ میں دعا مانگا کرتے تھے اور لوگوں کے حسنِ اعتقاد کا یہ عالم تھا کہ اُن کے ایک ایک لفظ پر ہر کونے اور ہر گوشے سے آمین کی صدائیں بلند ہوتی تھیں ۔ایک صاحب دل کا کیا ہی اچھا قول ہے۔ اُدع بلسان الذّلّة والافتقارِ لا بلسان الفصاحة والانطلاق۔ ''ذلت اور افتقار کی زبان سے اللہ کو پکارو۔ فصاحت ، بلاغت اور طلاقت ِلسانی سے کام نہ لو''۔ ادب ٦ :وان لا یتکلف التغنی بالانغام ۔ (حصن حصین) ''اور آداب ِدعاء سے ایک یہ ہے کہ دعاء میں گانے کا طریقہ اختیار نہ کرے''۔